’’وہ وقت جب اندرا گاندھی کو جنسی بے راہ روی سے روکنے کے لئے پنڈت نہرو نے اسکی شادی کا فیصلہ کرلیا اور ایسے سیاستدان کوداماد بنانے کے لئے گھر بلایا جس نے اندرا کے ساتھ رات گزاری , صبح ہوتے ہی اندرا نے کہا کہ یہ نوجوان واقعی ۔۔۔ ‘‘ شرمناک کہانی سامنے آگئی

’’وہ وقت جب اندرا گاندھی کو جنسی بے راہ روی سے روکنے کے لئے پنڈت نہرو نے اسکی ...
’’وہ وقت جب اندرا گاندھی کو جنسی بے راہ روی سے روکنے کے لئے پنڈت نہرو نے اسکی شادی کا فیصلہ کرلیا اور ایسے سیاستدان کوداماد بنانے کے لئے گھر بلایا جس نے اندرا کے ساتھ رات گزاری , صبح ہوتے ہی اندرا نے کہا کہ یہ نوجوان واقعی ۔۔۔ ‘‘ شرمناک کہانی سامنے آگئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(ایس چودھری )بھارت کے سب سے بڑے سیاسی خاندان نہرو سے تعلق رکھنے والی سابق وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی کی ذاتی زندگی پر کئی سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں ۔کئی تحقیق کاروں نے انکشاف کرچکے ہیں کہ اندرا گاندھی اپنی سرکش جوانی کے ہاتھوں مجبور تھیں۔بااثر مسلمان نوجوانوں کے علاوہ انکے کئی نوجوان سیاستدانوں سے بھی جنسی تعلقات استوار رہے اور وہ اسکی کوئی پرواہ نہیں کرتی تھیں کہ ان کے بارے کون کیا کہتا ہے ۔

بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی بیٹی کے کرتوتوں پر متعدد بار پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن جب اس میں ناکامی ہوئی تو انہوں نے اپنے قابل اعتماد ملازم پریم نارائن کواندرا کا ذاتی محافظ بنا دیا تاکہ وہ اسکی حفاظت کے ساتھ ساتھ اسکو برے کاموں سے روک سکے ۔

پریم نارائن دس سال سے نہرو خاندان کا نمخوار تھا اور اس نے گریجویشن کررکھی تھی ۔پریم نارائن اندرا گاندھی کی مردوں سے تعلقات کی ساری سرگرمیوں سے آگاہ رہتا اور اپنے کیمرے سے اسکی خفیہ تصاویر بھی بناتا رہتا تھا ۔نہرو خاندان سے تعلقات بگڑنے کے بعد پریم نارائن نے اندرا گاندھی کی خفیہ جنسی زندگی پر ’’ جب اندرا جوان تھی ‘‘ کے نام سے ایک تہلکہ خیز کتاب لکھ ڈالی جس کی پاداش میں اسکو جیل میں ڈال دیا گیا جہاں وہ گمنامی کی موت مرگیا ۔پنڈت نہرو نے اس کتاب کی کاپیاں جلا ڈالیں لیکن اس میں سے پھر بھی چند کاپیاں بچ گئی تھیں۔

پریم نارائن نے کتاب میں اندرا گاندھی کے ہوشربا جنسی معاملات کو آشکار کرتے ہوئے ایسا واقعہ بھی لکھا ہے جب اندرا گاندھی نے اپنا رشتہ دیکھنے کے لئے آنے والے سیاستدان کوپہلے ’’چیک ‘‘ کیا تھا ۔پریم نارائن نے لکھا ہے کہ جب پنڈت جی کو بھی اندرا کی شرمناک مصروفیات کی بھنک پڑ گئی تو انہوں نے کملا دیوی (اندرا کی ماں )سے مشورہ کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے اندرا کی شادی کردی جائے ۔

مختلف لڑکوں کو زیرِ بحث لایا گیا۔ کملا دیوی کا خیال تھا کہ اندرا کی شادی ڈاکٹر کھارے سابق وزیر اعلیٰ صوبہ سی پی سے کر دی جائے۔ جبکہ پنڈت جی فیروز گاندھی کو اپنا داماد بنانا چاہتے تھے۔ اندر اسے رائے طلب کی گئی تو اس نے ڈاکٹر کھارے کے حق میں ووٹ ڈالا۔(واضح رہے کہ ڈاکٹرنارائن باسکرکھارے نے لاہور کے کنگ ایڈروڈ سے ایم بی بی ایس کیا تھا،بعد ازاں متحدہ ہندوستان کی سیاست میں انتہائی سرگرمی سے کردار ادا کیا اور کئی وزارتوں پر فائز بھی رہے ،قد آور اور مضبوط ڈھیل ڈول کے انسان تھے ) 


پنڈت جی نے کھارے کو الٰہ آباد آنے کی دعوت دی مگر مقصد نہ بتایا ۔ صرف اتنا لکھ بھیجا کہ آپ سے کچھ ضروری امور پر تبادلہ خیال کرنا ہے چنددنوں کے لیے آئیں۔ اندر کی خوش قسمتی ملاحظہ کیجئے جس روز ڈاکٹر کی آمد کا تار آیا اسی روز پنڈت جی کو گاندھی جی نے دہلی طلب کر لیا اور یہ کھارے کی آمد سے ایک روزپہلے دہلی چلے گئے۔ دوسرے روز جب ہم کملا دیوی کی معیت میں سٹیشن پر ڈاکٹر کھارے کو لینے گئے تو اندرا ہلکے گلابی رنگ کی ساڑھی میں ملبوس تھی ۔ جس میں اس کا حُسن کچھ اور نکھرآیا تھا۔ 
ساڑھے گیارہ بجے گاڑی آئی ۔ ڈاکٹر کھارے فرسٹ کلاس کے گیٹ میں کھڑے پلیٹ فارم پر نگاہیں دوڑا رہے تھے۔ کملا دیوی نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ تو انہوں نے ہمیں دیکھ لیا۔ کھارے ایک وجہیہ ، پرکشش اور صحت مند نوجوان تھے ۔ آتے ہی کملا دیوی کے قدموں کو چھوا اور ہم لوگ ہنستے مسکراتے گھر آگئے۔ چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر کملا دیوی کسی کام سے اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ اور اندر ڈاکٹر سے کہنے لگی ۔ 
’’آئیے آپ کو آپ کا کمرہ دکھا دوں۔‘‘
’’مگر ایک شرط ہے ۔‘‘ کھارے مسکرا کر کہنے لگے ۔
’’وہ کیا ؟؟‘‘ اندرا نے پوچھا ‘‘
’’آپ اپنا کمرہ بھی دکھائیں گی۔ ‘‘


اندرا شرما نے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اٹھی اور کہنے لگی ’’یہ بھلا کیسی شرط ہوئی کہیے تو سارا بھون دکھلا دوں‘‘ 
’’ضرور ، ضرور‘‘
اندر ڈاکٹر کھارے کو لے کر انہیں بھون دکھلانے لے گئی۔ 
’’بھئی بہت خوبصورت بنا ہوا ‘‘ کھارے دوسری کا ریڈور میں مڑتے ہوئے بولے ‘‘ اسے بنے ہوئے کتنا عرصہ گزر چکا ہے ۔ ؟‘‘ اندرا نے بتایا کہ یہ بھون پہلے محمود ولا کے نام سے بنا تھا۔ سر سید احمد خاں کے بیٹے جسٹس محمود نے اسے تعمیر کرایا ۔ ان سے راجہ کنور پر مانند ڈسٹرکٹ جج شاہجہاں پور رئیس اعظم مراد آباد نے خریدا اور پھر جب پتا جی گیارہ سال کے تھے تو مرحوم دادا جان (موتی لال نہرو) نے اُن سے خرید لیا ۔‘‘
اندر جب اپنے کمرے کے سامنے پہنچی تو بولتے بولتے ایک دم خاموش ہوگئی ۔ میں ان دونوں کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اندرا میری وجہ سے خاموش ہوگئی ہے۔ میں اندرا سے اجازت لے کر باہر نکل آیا ۔ اور اندرا ڈاکٹر کو لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد کسی کام سے کملا دیوی نے مجھے بلا بھیجا ۔ میں قصداً اندر کے کمرے کی طرف سے گزرا تو اندرا کہہ رہی تھی ۔ 
’’نہیں بھئی ایسے نہیں۔ لائیے میں خود دکھاتی ہوں‘‘
کھارے کی آواز آئی ’’ آخر اس البم میں کونسی ایسی چیز ہے جسے آپ چھپانا چاہ رہی ہیں‘‘ 
میں فوراً زینوں کے ذریعے چھت پر پہنچا اور اندر کے کمرے کے روشندان میں سے جھانک کر دیکھا۔ کھارے البم پکڑے کمرے میں گھومتے جاتے اور دیکھتے جاتے۔ اندرا ان کے پیچھے پیچھے لپکتی رہی۔ میں یہ دیکھ کر نیچے آگیا۔ اس لئے کہ کملا دیوی میرا انتظار کر رہی تھیں۔ 
رات تقریباً دو بجے ہوں گے ۔ میری آنکھ کھل گئی ۔ ذہن چھینا جھپٹی کی طرف چلا گیا۔ جو البم حاصل کرنے کے لئے ہو رہی تھیں۔ بلا مقصد اٹھ کر برآمدے میں آگیا۔ دیکھا تو اندر کے کمرے میں روشنی جل رہی تھی ۔ مگر کھڑکیوں سے دبیز پردے ہونے کی وجہ سے میرا تجسس مجھے پھر ایک بار روشندان تک لے گیا تو
میں نے ڈاکٹر کھارے کو ایک وحشی کی طرح اندرا کو بھنجوڑتے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔ شاید اس نے کچھ پی بھی رکھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اندرا کی حرکات اس وقت عاجزا نہ دکھائی دے رہی تھیں۔ میں زیادہ دیر وہاں کھڑا نہ رہ سکا اور اس مکروہ فعل پر ہزار صلواتیں سناتا واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ 
صبح ناشتے کی میز پر کملا دیوی دونوں کا انتظار کرتے کرتے تھک گئیں۔ میں اُدھر سے گزرا تو مجھے کہا دیکھو پہلے تو کبھی اندرا اتنی دیر نہیں ہوئی سوئی۔ 
جی میں آیا کہ کملا دیوی کو سب کچھ بتا دوں ۔ مگر پھر سوچا کہ اوّل تو یہ ماں ہے ۔ بیٹی پر الزام برداشت نہیں کرے گی۔ دوم میرے نوکری کا معاملہ ہے اور تیسرا یہ کہ ان کے ذاتی افعال میں میرا مخل ہونا کچھ زیب نہیں دیتا ۔میں گیا تو اندرا باتھ روم سے نکل رہی تھی۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگی۔ 
’’کیا بات ہے؟‘‘
’’ ڈاکٹر کھارے نے آپ کے مزاح پوچھے ہیں ‘‘ میں نے مسکرا کر کہا ۔ اندرا نے سمجھا شائد ڈاکٹر کھارے نے بھی مجھے اپنا ہمراز بنا لیا ہے۔ کہنے لگی ’’نرائن ! کھارے واقعی ایک مرد ہے‘‘۔
’’تجربہ ہوگیا ہے کیا؟‘‘
اندرا آئینے کے سامنے جا کر بیٹھ گئی ’’ہاں‘‘ 
اور میں حیران تھا کہ اندرا کس ڈھٹائی سے اپنے منہ سے اقرار کر رہی ہے ۔ لیکن گذشتہ واقعات کو دیکھتے ہوئے میری یہ حیرانگی برقرار نہ رہ سکی۔ 

مزید :

ڈیلی بائیٹس -