سیاسی، مفاداتی، ذاتی اختلاف پس پشت، اجتماعی توبہ کی ضرورت!
حزب اختلاف کی ریکوزیشن پر طلب کئے گئے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں جو ہوا، اس سے مایوسی تو ہونا ہی تھی، دکھ بھی ہوا کہ ہماری دلی خواہش کے پورا ہونے کی جو کوئی چھوٹی موٹی امید تھی وہ بھی ختم ہی ہو گئی ہم سوچ رہے تھے کہ پوری دنیا میں ایک نامعلوم سے جرثومے نے جو قیامت ڈھائی ہے، اس کی وجہ سے انسان نصیحت پکڑے گا۔ اللہ کے حضور جھک کر توبہ کرے گا اور غلطیوں سے تائب ہو جائے گا، یہ توقع اور امید دنیا بھر کے انسانوں سے پورا ہونا تو کجا، خود اپنے پاکستانی بھائیوں سے بھی پوری نہیں ہوئی ہم اس وبا سے خائف ہوئے بغیر نہ صرف اپنی غلطیوں کو تسلیم کرکے تائب ہونے کو تیار نہیں، بلکہ ہم تو پہلے سے بھی زیادہ تعلیمات الٰہی اور رسولؐ کو فراموش کرنے پر تل گئے ہیں ہمارے کسی عمل میں کوئی بہتری نہیں آئی، اس کا عملی نمونہ اشیاء خوردنی اور ضروری کے نرخوں ہی سے لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے عوام سے سدھار کی توقعات بہت زیادہ تھیں کہ ہم مسلمان اور ہماری ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، اللہ کی کتاب قران مجید اور رسول اکرمؐ کی تعلیمات پر عمل کے داعی ہیں، لیکن دکھ یہ ہے کہ یہی کچھ ہو نہیں رہا، اللہ نے فرمایا، لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے، کیا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں“ ہم طے کئے بیٹھے ہیں کہ ایسا ہی کریں گے، اس کی زندہ اور زمانہ حال کے مطابق مثال یہ ہے کہ ہم سب نے کورونا جیسی پُراسرار وبا سے بھی کچھ سبق حاصل نہیں کیا اور غور نہیں کیا،
قران مجید، فرقان حمید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر بار بار ملتا ہے۔ اس پیغمبر اللہ کی قوم ایسی نافرمان اور لالچی تھی کہ مصیبت پر رو دھو کر حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی قوم کا ذکر بار بار ملتا ہے۔ اس پیغمبر اللہ کی قوم ایسی نافرمان اور لالچی تھی کہ مصیبت پر رو دھو کر حضرت موسیٰ ؑ کے پاس فریادی بن کر آ جاتی اور پریشانی ٹلتے ہی پھر سے پرانی روش پر لوٹ جاتی اور یوٹرن لے لیتی۔ بلاشبہ اللہ جل شان ہو نے اسی بنی اسرائیل پر من و سلویٰ اتارا، اس سے وطن (فلسطین) کا وعدہ کیا۔ لیکن اس پر کوئی بھی اثر نہ ہوا، اور ہر بار نافرمانی کی۔ ہمیں تسلیم کہ اس سے ایک وطن کا وعدہ کیا گیا، لیکن یہ ان کے لئے تھا جو حضرت موسیٰ ؑ کے صحیح پیروکار، نیک اور صالح تھے، ان کے لئے نہیں جو اطاعت کا اعلان کرتے اور مکر جاتے تھے، لہٰذا ہم اسی قرآن کی رو سے ان کی اس منطق اور حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ ؑ کلیم اللہ کے دور ہی میں نافرمانی کے ریکارڈ قائم کئے تھے۔
اسی قرآن مجید میں ان بنی اسرائیلیوں کی نافرمانیوں اور سزاؤں کا بھی ذکر ہے۔ پھر طوفان نوح، قوم ثمود و عاد اور قوم لوط کے حوالے سے بھی موجود ہیں، پھر ہمارے سامنے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ کا دور مبارک اور ان کی تعلیمات بھی ہیں ہم ریاست مدینہ کا ذکر کرتے، ارشادات نبویؐ دہراتے ہیں لیکن ہمارا عمل وہ نہیں جس کا ہم ذکر کرتے ہیں۔ یوں اگر کہا جائے تو یہ سب منافقت ہے اور اب اس سے بڑی منافقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم اس پراسرار وبا سے بھی سبق نہیں سیکھ رہے اور اپنے اعمال کو درست نہیں کرتے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم بحیثیت قوم اور پیروکار رسولؐ اللہ کے حضور جھک جاتے اور اجتماعی توبہ کرتے اور معافی کے طلبگار ہوکر آئندہ کے لئے تائب ہونے کا اعلان اور عمل کرتے، لیکن افسوس! ایسا کچھ نہیں ہوا، الٹا ہم نے اس وبا کا بھی کچھ اثر نہیں لیا، ہمارے کرتوت وہی ہیں، یہ کہیں کہ جو پہلے تھے، سو اب بھی ہیں، اس سلسلے میں موجودہ لاک ڈاؤن اور ہمارے رویے ہیں، ہم نے ظاہر کر دیا کہ ہمارے پاس اگر درست فیصلے کی اہلیت نہیں تو کسی درست بات پر عمل کے لئے بھی تیار نہیں ہیں اور نہ ہی ہم بڑے مقصد کے لئے اختلاف بھلا کر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے پر تیار ہیں، ہم نے اعلان سے پہلے کب احتیاط کی کہ اب کرتے، جونہی نرمی کا کہا گیا ہم بھی بے لگام ہو گئے، بے شک زندگی اور موت اللہ کا اختیار ہے، لیکن اسی اللہ نے اپنے پیارے رسولؐ کے توسط سے ہمیں ہدائت بھی تو فرمائی ہے۔ اس پر بھی تو عمل ہونا چاہیے اور اپنی حفاظت بھی کرنا چاہیے۔
بازار اور بازار والوں کو چھوڑیں، ذرا ان کی طرف دیکھ لیں، جن کے ہاتھوں میں ہم (جائز یا ناجائز) نے اپنی قسمت دی ہے۔ کیا ان حضرات نے اس وبا کا اثر قبول کیا یا ان کے خیال میں جو غریب ہے وہی موت کا حق دار ہے اور اپنے عالیشان گھروں اور دفاتر میں پورے انتظامات کے ساتھ بیٹھے یہ حضرات بالکل محفوظ ہیں،فرشتہ اجل کو ان کی طرف آنے کی فرصت نہیں کہ وہ آج کل دنیا بھر میں مصروف ہے۔ کیا آپ (قارئین) نے یہ سنا کہ ”اشرافیہ“ کے کسی فرد کی موت بھی اس وائرس سے ہوئی اور اسے بھی کفن، دفن اور نماز جنازہ سے محروم ہونا پڑا، نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا، یہ تو عمر پٹہ لکھوا کر لائے ہوئے ہیں، اگر ان کو احساس ہوتا، جیسا کہ یہ اپنی تقریروں، بیانات اور ٹویٹ میں کرتے ہیں تو یہ بھی وقتی طور پر ہی سہی اپنے ”مفاداتی اختلاف“ بھلا کر اپنی توانائیاں کورونا وائرس کے خلاف استعمال کرتے اور اس وبا پر مکمل قابو پانے کی سعی کرتے، لیکن ایسا کچھ بھی تو نہیں ہوا، سب کا ”کلّہ“ قائم ہے۔ سب ”غیبی آواز“ پر لگے ہوئے ہیں کیا، اے عوام! تم نے گزشتہ دو روز میں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نہیں دیکھا کہ کس طرح وزیر خزانہ شاہ محمود قریشی نے اپنے مخصوص انداز میں گلا پھاڑ کر چیلنج نہیں کیا اور دھمکی نہیں دی کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کا دھڑن تختہ کرنے آ رہی ہے اور کیا انہی معزز خاندانی سیاست دان نے ”سندھ کارڈ“ کا طعنہ دے کر خود ”کراچی کارڈ“ کی بات نہیں کی،
ہم نے محترم کا وہ دور بھی دیکھا ہوا ہے، جب وہ پیپلزپارٹی میں تھے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریب تر تھے۔ اس کے بعد بھی ان صاحب نے آصف علی زرداری کے ساتھ بھی خوب گزارا کیا اور اب وہ کہتے ہیں، یہ پیپلزپارٹی وہ پارٹی ہی نہیں ہے، ہم دعاگو ہیں کہ ان کو احکام ملیں اور ان کی دلی خواہش پوری ہو اور یہ ترقی کریں، جیسے انہوں نے پنجاب کے صوبائی وزیر خزانہ سے اب تک کی ہے اور ایک اور اعزاز تحریک انصاف کے سینئر وائس چیئرمین کا بھی حاصل ہے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اسی حیثیت سے نمائندگی کی۔ بہرحال سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا اور قوم کو مایوس کیا، کورونا اور توبہ تو دور کی بات ہے دونوں ایوانوں میں ”سوقیانہ“ حملے ہی ہوئے تاہم بلاول بھٹو اور شاہد خاقان عباسی نے لہجہ اور الفاظ قدرے بہتر رکھے۔ بقول ہمارے دوست نوید اقبال چودھری، بدھ کا اجلاس شاہد خاقان عباسی کے نام رہا۔
دوسری طرف وزیراعظم کی ایوان میں عدم حاضری کا طعنہ دینے والے قائد حزب اختلاف محمد شہبازشریف بھی اپنے لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھے رہے، تاہم حیرت تو بیرسٹر شہزاد اکبر کی میڈیا سے گفتگو پر ہوئی جنہوں نے اس موقع پر وہ سب پرانے الزام دہرائے جو عرصہ سے لگا رہے ہیں، ان کو ایسا کرتے دیکھ کر ہمیں سیف الرحمان یاد آ جاتے ہین، کیا یہ سب زمانے میں پنپنے کی باتیں ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہباز شریف کے حالیہ انٹرویوز نے اپنا اثر دکھایا اور شہزاد اکبر صاحب نے عدالتی فیصلے سے قبل فیصلہ سنا دیا کہ شہبازشریف کو سزا ہوگی جو بھی کہا گیا یہ اب تک الزام ہیں، نیب نے انہی کی تحقیق و تفتیش کی اور ریفرنس دائر کیا، یوں یہ معاملہ ”سب جوڈیس“ ہے شہزاد اکبر خود بیرسٹر ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ”سب جوڈیس“ مسئلہ پر ایسی حتمی رائے دینے کا کیا مطلب ہے؟
ہم تو آج بھی اپیل کریں گے کہ حالات کو جانیں، کورونا کو اللہ کا انتباہ مانیں اور سیاسی، ذاتی، مفاداتی اختلافات کو ”ہیلڈ اِن ایبے“ (Held In Abey) کر دیں، پہلے قومی مسائل سے نمٹ لیں، پھر دنگل بھی ہو جائے گا اور پتہ چل جائے گا کہ کون شہ زور ہے۔ اگر کوئی گونگا پہلوان ثابت نہ ہوا، جو اکھاڑے کے باہر بیٹھے اپنے استاد کے اشارے پر چِت بھی ہو جاتا تھا۔ قوم سے اپیل ہے کہ اجتماعی توبہ کا اہتمام کرے۔ علماء کرام کو پیش قدمی کرنا چاہیے، اللہ سے معافی کی دعا مشترکہ ہونا چاہیے۔