کورونا وائرس ، گھروں سے کام کرنیوالوں پر اعتراضات کیوں ؟

کورونا وائرس ، گھروں سے کام کرنیوالوں پر اعتراضات کیوں ؟
کورونا وائرس ، گھروں سے کام کرنیوالوں پر اعتراضات کیوں ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ طنز و تشیع کرنے والے کی مثال ایک مکھی کی طرح ہے جو تمام تر صحت مند اور خوبصورت جسم کو چھوڑ کر گندے زخم پر بیٹھنا پسند کرتی ہے ۔

یہ فرمان آج کل کے دور میں بھی بالکل درست نظر آتا ہے ۔ کبھی لوگ کسی کی پستہ قامت کو نشانہ بناتے ہیں تو کبھی کسی کا موٹاپا ان کے طنز کا نشانہ بنتا ہے ۔ مانیں نہ مانیں مثبت سوچ رکھنے والے افراد بہت ہی کم ہیں زیادہ تر لوگ ہمیں ایسے نظر آتے ہیں جو کسی نہ کسی کو ذہنی یا جسمانی اذیت دینے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔

میں نے چند دن پہلے ہی سوشل میڈیا پرویڈیو دیکھی اور مجھے بہت ہی افسوس ہوا کہ کئی لوگوں کو جو کورونا کے دوران گھر سے اپنا کام کر رہے ہیں ان کو طنز کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔۔ اچھا جی کام کر رہے ہو ۔۔ بس بہت ہانڈیاں پک رہی ہیں ۔ بچوں کو جھولے جھلائےجا رہے ہیں ۔ گھروں کی صفائیاں ہو رہی ہیں ، وزن بڑھایا جا رہا ہے ، آپ کون سا کام کر رہے ہیں ؟ آپ کے ادارے والے تو بھئی بہت ہی اچھے ہیں جو آپ لوگوں کو گھر بٹھا دیا ۔ ہمیں دیکھیں روز آرہے ہیں ہمیں بھی پتہ ہے کہ کورونا ہے ۔ ؟ آپ کی تو کمپنی بڑی دیالو ہے مفت میں آپ کو پیسہ دیتی جا رہی ہے ۔

یہ سب باتیں سوشل میڈیا پر ایک بحث کیوجہ بن رہی ہیں ۔
دنیا کی ڈیڑھ لاکھ سے زائد آبادی اس وبا کے باعث لقمہ اجل بن چکی ہے ۔ کئی ہزاروں میں اس وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے ۔ امریکا ، اٹلی ، سپین اور برطانیہ سمیت بہت سے ترقی یافتہ ممالک اس وقت پریشانی کے عالم میں ہیں ۔ پاکستان میں تو اللہ تعالی کے کرم سے کم اموات ہوئی ہیں ۔ لوگ صحت یاب بھی ہوئے ہیں ۔
لیکن اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ کسی بھی قسم کی کوئی احتیاط نہیں کی جائے اور ملازمتوں کی جگہ پر بغیر کوئی احتیاطی تدابیر اختیار کئے ہوئے کام جاری رکھا جائے ۔

حالیہ دنوں میں دنیا میں سب سے زیادہ نوکری دینے والی کمپنی والمارٹ نے 1.5 لاکھ لوگوں کو نوکری دینے کا اعلان کیا ہے ۔ کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے امریکہ میں آن لائن اور آف لائن سیلس میں بڑا اضافہ ہوا ہے ۔

کورونا وائرس کی وجہ امریکہ میں تاریخی ٹرینڈنگ فلور کو بند کرنا پڑا ہے ۔
بہت سے لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں اور ان کی کمپنیاں جانتی ہیں کہ گھروں پر کام کروانا اس لئے بہتر ہے کہ کورونا کی وجہ سے سماجی دوری ناگزیر ہے اوراگر اس سماجی دوری سے روگردانی اختیار کی گئی تو سنگین نتائج ہو سکتے ہیں اور اس سے کمپنی کو شدید مالی اور جانی نقصان کا سامنا بھی ہوسکتا ہے ۔

ہاں کئی لوگ اس کو مذاق کے طور پر ضرور لے رہے ہیں جبکہ درحقیقت ایسا نہیں ۔ گھر پر کام کرنا نسبتا مشکل ہے کیونکہ دفاتر میں ہر ایک روٹین کے مطابق کام کرتا ہے۔ غیر یقینی صورتحال کا بھی سامنا ہے کیونکہ کئی دفاتر میں لوگوں کو کورونا کا بہانہ بنا کر فارغ بھی کیا گیا ہے ۔ لیکن زندگی اور صحت سب کو پیاری ہے ۔

اگر ایک طرف لوگ کورونا کی وبا سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف کوئی بھی کمپنی نہیں چاہتی کہ اسکو لینے کے دینے پڑ جائیں ۔۔ ایک ایسی صورتحال میں جب لوگ باعزت طریقے سے اپنا روزگار گھر پر سے جاری رکھنے کے لئے کوشاں ہیں تو ان کو طنز کا نشانہ بنانا کسی طرح بھی درست نہیں ۔ کئی کمپنیوں نے تو ایڈوانس سیلری کا بھی اہتمام کیا ہے اور ملازمین کو باقاعدگی سے تنخواہ مل رہی ہے ۔دوسری طرف کچھ کام چور لوگ گھر بیٹھ کر خوش بھی ہیں لیکن جو افراد دل سے اپنی ملازمت کے ساتھ مخلص ہیں وہ کام کر رہے ہیں اور اپنے بچوں کی روزی کی فکر میں سرگرداں ہیں ۔

ذرا سا مختلف ہو کر سوچئیے ، ذرا سی ہمدردی اپنے رویے میں پیدا کیجئیے ۔۔ اگر آپ خود کام نہیں کر رہے تو کم ازکم کسی دوسرے کو جو گھر سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے طنز کا نشانہ مت بنائیے ۔

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

۔

اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -