"زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی" 

"زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی" 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں زراعت کا شعبہ سماجی اور معاشی لحاظ سےسب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ زراعت کے شعبہ میں گزشتہ چند سالوں سے غیر معمولی توجہ دی جارہی ہے جس سے معاشیات میں بہتری کا امکان متوقع ہے۔ پاکستان میں  بہترین  موسم اور  آب و ہوا کی وجہ سے کئی اعلیٰ کوالٹی کی فصلوں کو کاشت کیا جاتا ہے۔ جن میں  زیتون کی کاشتکاری بھی سرفہرست ہے۔ مگر ہماری ناقص حکمت عملی کے کارن کئی دہائیوں سے زیتون کی فصل ہماری توجہ کی منتظر رہی ۔ اور اب بلا آخر کچھ دیر قبل اس کی کاشت کاری پر غیر معمولی اہمیت دی گئی ۔ جس کے نتیجے میں زیتون کا ایک خاموش انقلاب برپا ہوا ۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق  پاکستان اب انٹرنیشنل اولیو کونسل کا انیسواں رکن بن چکا ہے۔ جو ہر سال تقریباً 1,500 ٹن زیتون کا تیل اور 830 ٹن ٹیبل زیتون پیدا کر رہا ہے۔ 
زیتون کا تیل ترقی پزیر ملک میں اہمیت کا حامل اس لیے بھی ہے  کہ اس کے استعمال سے کوکنگ آئل کی درآمد میں کمی واقع  ہوسکتی ہے ۔ پاکستان اپنے معاشی حالت کی وجہ سے کئی کرائسس سے نمٹ رہا ہے ان حالات میں کھانے کا تیل باہر سے منگوانا حکومتی خزانے پر ایک بہت بڑا برڈن ہے ۔ رواں برس 2.1 بلین ڈالر  کی مالیت خرچ کر کہ  پام آئل درآمد کیا گیا۔اور اس  وقت پاکستان کوکنگ آئل درآمد کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ ان حالات  کو مدنظر رکھتے ہوئے زیتون کا تیل ہی متبادل رستہ ہے کیونکہ زیتون کے تیل کی پیداوار میں اضافے ملک کا پام آئل کی درآمدات پر انحصار کم سے کم کرسکتا ہے۔ اور  درآمد شدہ پام آئل کو ملکی زیتون کے تیل سے تبدیل کرنے کی صورت میں معاشی بحران کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ زیتون کے تیل کے استعمال سے ناصرف ہماری معیشت کو استحکام ملے گا بلکہ صارفین کی صحت کو بھی  بہتر بنایا جاسکےگا۔ زیتون کے تیل کی اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں کولسٹرول کی مقدار نہایت کم ہوتی ہے۔جس کہ باعث اس کو استعمال کرنے سے  کئی طبی فائدے مہیاء ہوتے ہیں۔ زیتون کا تیل عموماً کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاؤ زیتون کے تیل کودیگر مصنوعات کی تیاری میں بھی شامل  کیا جاتا ہے جیسے کہ ؛  زیتون کا جام، چٹنی، اچار ، زیتون کا شربت، زیتون کا سرکہ، زیتون کی چاکلیٹ اور زیتون کی چائے۔
زیتون اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے۔ اور اسکی اہمیت قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔  اس کا  تذکرہ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر عمدہ طریقے سے کیا گیا ہے اور اس کی اہمیت کی تصدیق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد اعلانات سے ہوئی ہے۔
 پاکستان میں کچھ عرصے سے زیتون پر مسلسل کام جاری ہے جس سے معاشیات میں اضافے کہ امکانات موجود ہیں۔ زیتون کی  کاشتکاری سے غربت کا خاتمہ یقینی بنایا جائے گا۔ لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع فراہم کئے جائیں گے ۔ اور اسکی برآمدات سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ ترقی کے اس منصوبے کی عکاسی کرتے ہوئے زیتون کے درخت لگانے کی حالیہ مہم پاکستان ایگریکلچر اینڈ ریسرچ کونسل (PARC) کے ذریعے شروع کی گئی۔ اس مہم کا مقصد پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور فاٹا میں خاص طور پر زیتون کی کاشتکاری کا کام  شروع کرنا تھا اور زیتون کی  کاشت کے ذریعے خوردنی تیل کی مقامی پیداوار کو بڑھانا تھا ۔ پاکستان زیتون کی تجارتی کاشت کے لیے ایک پرکشش ملک ہے اس کی وجہ پاکستان کا موسم ، معیاری مٹی اور ماحولیاتی تنوع ہے۔ پاکستان کے شمال مشرقی کونے میں پوٹھوار کے علاقے کو اس کے مقامی موسم کی وجہ سے زیتون کی کاشت کے لیے موزوں علاقے کے طور پر پہچانا گیا اور اب "وادیء زیتون" کے  نام سے زیتون کی کاشتکاری کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔  اس کے علاؤہ پاکستان میں زیتون کی کاشت کے لیے موزوں زمین کی نشاندہی کی جاچکی ہے جو کہ  تقریباً 10 ملین ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے۔ زمین کا اتنا بڑا ٹکڑا اگر زیر کاشت لایا جائے تو  اسپین سے کہیں زیادہ زیتون کی پیدوار ممکن ہوسکے گی ۔ اسپین  زیتون کا تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہےجو کہ اس وقت  عالمی سطح پر 57 فیصد زیتون پیدا کررہا ہے۔پاکستان زیتون کی کاشت کے لیے کافی موزوں زمین ہے۔پاکستان اسپین کو بھی پیداوار میں پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر زیتون کی پیداوار کے لیے ٹھوس اقدامات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ 
ملک میں زیتون کی پیداوار کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کام میں  ماہرین کے ساتھ مل کر  زیتون کی شجکاری کو ممکن بنانے کے اقدامات کیے جانے چاہیے، مختلف علاقوں میں متعدد نرسریاں بنائی جائیں ، جگہ جگہ مخصوص ادارے قائم کیے جائیں اور  آنے والے موسموں میں ان کوششوں کو مزید تیز کیا جائے تاکہ زیتون کی کاشت کاری کو بڑے پیمانے پر ممکن بنایا جاسکے ۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ متعلقہ سرکاری اداروں کی مناسب مداخلت کے بغیر زیتون کی شجکاری کو بڑے پیمانے پر لے جانا ممکن نہیں ۔اب وقت آگیا ہے کہ حکومت اپنی بہترین حکمت عملی کے ذریعے پاکستان کو زیتون کی برآمدات کرنے والے تمام ممالک کی سرفہرست میں شامل کریں۔ اور پاکستان کو زیتون کی کاشت کاری سے ایک خود کفیل اور سرکردہ ملک بنائیں۔
زیتون کے باغات جہاں ایک طرف خوردنی تیل کی مقامی طلب کو پورا کرتے ہیں وہی  دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ زیتون کی کاشت کے لیے دیگر اہم عوامل بھی قابل غور ہیں ۔ جس میں سے ایک یہ ہے کہ ؛ زیتون کے پودوں کو دوسرے پودوں اور فصلوں کے مقابلے میں سب سے کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پانی کی کمی کا چیلنج اور زیتون کے پودوں کی پائیداری پاکستان میں زیتون کے درختوں کو بڑے پیمانے پر اگانے کی ایک اور اہم وجہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں زراعت کا شعبے  مسلسل خطرے کی طرف جارہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان آنے والے چند سالوں میں پانی کے مسائل سے درپیش ہوگا۔ اں ضروری ہے کہ ایسی پالیسی  بنائی جائے جس سے ملک میں پانی کے بحران کا مقابلہ کیا جا سکے۔ پس زیتون کی کاشت کئی مسائل کا مشترکہ حل ہے ۔ زیتون کی کاشتکاری کا فروغ بہت سارے چیلینجیز سے نمٹنے میں مدد فراہم کرے گا ۔ 
پاکستان کو زیتون کی پیداوار کی اہمیت کو بخوبی سمجھنا ہوگا۔ بنجر زمینوں پر جہاں خشک سالی اور  پانی کی کمی سے دیگر فصلیں کاشت نہیں ہوسکتی وہاں زیتون کو آسانی سے اگایا جا سکتا ہے۔
ملک میں زیتون کے درخت اگانے سے نہ صرف معیشت میں بہتری آئے گی بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں میں نمایاں کمی آئے گی اور پانی کے مسائل سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔ 
افسوس کہ انتہائی اہمیت کا حامل زیتون اتنے سالوں سے بحران کا شکار ہے۔ پاکستان کا انحصار زیتون پیدا کرنے والے ممالک پر رہا ہے اور اس سے پاکستان کو سالانہ 2 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا رہا ہے ۔ جبکہ پاکستان زیتون کی پیداوار میں عالمی رہنما بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔پاکستان زیتون کی پیداوار کے لیے سازگار علاقہ ہے۔ پاکستان اپنی آبائی زمینوں پر زیتون کی پیداوار کرکے نہ صرف اپنی ضرورت پوری کرسکتا ہے بلکہ وہ دوسرے ممالک کو بھی برآمد کرسکتا ہے۔ 
ہمیں یہ بات سمجھنے میں کافی دیر ہوگئی کہ 
معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے زیتون کی کاشت کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔
 اگر اس بات پر شروع سے توجہ دی جاتی تو یقیناً آج ملک کے حالات کئی گنا بہتر ہوتے۔
 بہرکیف !دیر آئے درست آئے ۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -