گندم کا دانہ 

گندم کا دانہ 
گندم کا دانہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  

 اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ السَّلَام اورحضرت حوا  رَضِیَ اللہْ تَعَالٰی عَنہاسے فرمایا کہ جنت میں رہو اور جہاں دل کرے بے روک ٹوک کھاؤالبتہ اِس درخت کے قریب نہ جانا نہ اسکا پھل کھانا شیطان نے لغزش دی اور حضرت آدم علیہ السلام نے اسکا پھل کھایا۔ قرآن کریم یا احادیث مبارکہ میں اس درخت کے پھل کا ذکر نہیں ملتا اسکا تعین نہیں ہوتا کہ وہ درخت کس چیز کا تھا کچھ روایات میں گندم کا ذکر ہے۔حضرت آدم علیہ السلام نے گندم کادانہ کھا لیا اور اس بھول کی پاداش میں انہیں جنت سے نکالا گیا۔ 

حضرت یوسف علیہ السلام جب قید ہوئے تو دو قیدیوں کو ان کے خواب کی تعبیر بتائی جن میں ایک آزاد ہو کرشاہ مصر کا خادم بنا۔ شاہ مصر نے خواب دیکھا کہ سات موٹی گائے ہیں، جنہیں سات دْبلی گائے کھا جاتی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور سات خشک،  شاہ مصر نے اس خواب کی تعبیر کے لیے اپنے مشیروں۔ معبروں کو بلایالیکن کوئی تعبیر  نہ دے سکا جس قیدی نے حضرت یوسف علیہ السلام کی بتائی تعبیر پررہائی پائی اس نے شاہ مصر سے کہا کہ وہ بادشاہ سلامت کو ان کے دیکھے خواب کی تعبیر بتا سکتا ہے لیکن اسے زندان میں جانے کی اجازت دی جائے اسے اجازت ملی اور وہ زندان میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس گیا اور انہیں شاہ مصر کا دیکھا ہوا خواب بتایا کہ بادشاہ نے سات سبزخوشے اور ساتھ خشک خوشے دیکھے ہیں جس کی حضرت یوسف علیہ السلام نے  تعبیر بتائی کہ سات سال مسلسل  گندم کاشت کرو گے اور خوب گندم ہوگی اور سات سال قحط سالی رہے گی تو جو سات سال گندم ہوگی اسے خوشوں میں ہی رہنے دیا جائے اور ضرورت کے وقت گندم کو خوشوں سے نکال کر استعمال کرلیا جائے اور جب سات سال خشک سالی ہوگی تو رکھی ہوئی گندم کو ان سات سالوں میں استعمال کیا جائے  پھر 15ویں سال خوشحالی آئے گی بارشیں ہوں گی زمین شاداب ہوگی رس نچوڑے جائیں گے پھل پڑیں گے اور شادابیاں ہوں گی یہ خواب سن کر بادشاہ متاثر ہوا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو قید سے رہائی ملی نہ صرف رہائی ملی بلکہ انہیں خزانہ اور امور مملکت کا مکمل اختیار دے دیا گیا یہ اختیار خصوصی طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کودیا گیا کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام اس کے اہل تھے حضرت یوسف علیہ السلام منصوبہ بندی اور نظم میں کمال ملکہ رکھتے کہ انہوں نے خشک سالی سے بچنے کے کیا کیا انتظامات فرمائے آپ  علیہ السلام کے انتظامی امور پر مہارت اور ان کی دانش یہ تھی کہ جب مشرق وسطی میں (حال سعودی عرب کے تبوک۔ لبنان۔شام۔فلسطین اسرائیل۔اردن) قحط پڑا تو لوگ یہاں سے گندم لینے مصر جاتے حضرت یوسف علیہ السلام کی منصوبہ بندی کا کمال تھا کہ لوگ قحط سالی میں مرنے سے بچ گئے۔۔

ہم ایک اسلامی ملک کے باسی ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے اسلامی تعلیمات سے کبھی رہنمائی نہیں لی پاکستان میں ہر سال گندم کا مسئلہ سر اٹھاتا ہے ملک میں گندم وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے پھر بھی ہم اشرافیہ کی تجوریاں بھرنے کے لیے باہر سے مہنگے داموں منگواتے ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کی زرخیز زمینیں سونا اگلتی ہیں اسے سونے کی چڑیا بھی کہا گیا ہے سونے کی چڑیا خصوصاً پنجاب کو کہا گیا ہے کہ پنجاب کی زرخیز زمینیں لہلہاتی فصلیں بہتے دریا یہ سب مل کر پنجاب کی زمین کو اس قدر زرخیر کرتے ہیں کہ پنجاب کی زمین کا دامن پھلوں کے موتیوں سے بھر جاتا ہے پنجاب کی زمین بہترین فصل دیتی ہے لیکن ہم نے پاکستان میں کبھی کسی منصوبہ بندی کسی انتظامی حکمت سے کام نہیں لیا ایک چیز ہونے کے باوجود باہر سے منگوا کر مسائل پیدا کرتے ہیں  اور ان مسائل کا شکار عام آدمی ہوتا ہے اس سال گندم کی فصل وافر ہوئی ہے لیکن گندم کا مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوا ایک طرف کسان سراپا احتجاج ہیں کہ انہیں ان کی محنت کا معقول معاوضہ نہیں مل رہا یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے لیکن ہم اگر دوسری طرف دیکھیں تو وہ غریب لوگ جو مہنگی گندم خریدنے سے محروم رہتے تھے گندم کی قیمتوں میں کمی سے وہ بھی گندم خریدنے کے اہل ہوئے ہم نے بعض  کسانوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ جو شخص گندم نہیں لے سکتا تھا اس سال اس نے بھی لی ہے اور یہ بات بھی بعض کسانوں کو ہی کہتے سنا ہے کہ تین ہزار روپے من گندم کی قیمت مناسب ہے اور اگر دیکھا جائے تو بڑی  زمینوں کے مالک جو کثیر تعداد میں گندم اگاتے ہیں انہوں نے تین ہزار روپے من میں گندم بیچ کر بھی زیادہ منافع حاصل کیا ہے لیکن ہماری طبیعت کم منافع پر سیراب نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ ملک میں لوٹ کھسوٹ۔کھینچا تانی نے فروغ پایا ہے ہم ہر چیز کو دو دو ہاتھوں سے سمیٹنا چاہتے ہیں ہم کوئی چیز کسی غریب آدمی تک پہنچنے نہیں دیتے ہم تو غریب آدمی کے منہ سے بھی چھین لینا چاہتے ہیں ہمارے کسان بھائی ہمارے لیے قابل قدر و عزت ہیں لائق تحسین ہیں یہ زمین کا سینہ چیر کر اپنی محنت سے پھل اگاتے ہیں جس کا ثمر انہیں ملنا چاہیے لیکن انہیں اپنی محنت کا مناسب ثمر پانا چاہیے نہ کہ غریب کے سینے پہ پاؤں رکھ کر وہ غریب کے منہ سے  چھینیں بلکہ وہ اپنے حق کا معقول اور مناسب معاوضہ پائیں تو عام آدمی بھی حالات کی دلدل سے نکل سکے یقین جانیے اگر دیکھا جائے تو تین ہزار روپے من گندم بھی بیچ کر کسانوں نے لاکھوں کروڑوں روپے کمائے ہیں یہ بات درست ہے کہ حکومت نے اگر گندم کی قیمت 3900 روپے من مقرر کی تھی تو پھر حکومت کو کسانوں سے وہ گندم خریدنی چاہیے تھی حکومت کی یہ غلطی اپنی جگہ موجود ہے لیکن حکومت نے اگر غلطی کر لی تو کسان بھائیوں کو جذبہ خدمت خلق کے تحت ہی آگ بگولہ ہوئے بغیر تین ہزار من پر گندم فروخت کرنی چاہئے تھی اور تین بلکہ تین سے بھی کم پر بھی گندم فروخت ہوئی پھر بھی کسان بھائیوں کو نقصان نہیں ہوا البتہ کسان بھائی اس بات پر نالاں ہیں کہ انہیں بہت زیادہ فائدہ کیوں نہیں ہوا جبکہ اسلام ہمیں قناعت پسندی کا درس بھی دیتا ہے اور جس روز سے ہم قناعت پسند ہوگئے ہمارے حالات خوشگوار ہو جائیں گے رہی بات گندم کی تو اسکے دانے نے حضرت ادم کو جنت سے نکالا تھا، لہٰذا محتاط رہنا چاہیے۔

مزید :

رائے -کالم -