آج ہم جس سودی، فحاشی و بے حیائی والے نظام میں جکڑے ہوئے ہیں اس کے متعلق معروف مذہبی اسکالر ڈاکٹر اسرار احمدمرحوم جیسے زیرک شخص نے آج سے برسوں قبل ہی بتا دیا تھا کہ ہمارا نظام مغرب کا دیا ہوا نظام ہے اور یہ ایک دن پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس کی تباہی و بربادی کاباعث بنے گا اور انہوں نے اس وقت ہی عوام کو خبر دار کیا تھا کہ سودی نظام، فحاشی و بے حیائی کو فروغ دینے کے منصوبے پر عمل ہو چکا ہے لیکن ان کی بات کو کسی نے سنجیدہ نہ لیا اور آج ہمارا معاشرہ جس طرح بے راہ روی کا شکار ہو چکا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے کہ ہم نے مغربی نظام کے سامنے ہاتھ باندھ دیئے اور اس وجہ سے آج یہ نظام اس طرح سے ہمارے اوپر مسلط ہو چکا ہے کہ ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہم کر کیا رہے ہیں ہم کیسے معاشرے سے سود کو ختم کر سکتے ہیں، بے حیائی و عریانی اب عام ہو چکی ہے اس کا خاتمہ کیسے ہو گا اس پر ہم سوچتے ہی نہیں اور نہ ہی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔آج ہمیں مغرب کی ترقی و کامرانی تو نظر آتی ہے لیکن اس ترقی کے پیچھے جو گھناؤنا چہرہ ہے اس پر ہماری نظر نہیں پڑتی کہ کس طرح ان کا معاشرہ سود میں جکڑا ہوا ہے، برائی و بے حیائی عام ہے، ماں باپ کی تمیز ختم ہو چکی ہے، بہن بھائی کے رشتے کی پامالی کی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود مغرب ہمارا امام ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ان کی طرح بن جائیں لیکن ہم اپنے معاشرے کو سدھارنے کیلئے کوششیں نہیں کرتے، اس میں بہتری کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کرتے۔ ایک جانب ہمارا پورا نظام سود سے جکڑا ہوا ہے اور سودی نظام میں ہم اس قدر لت پت ہو چکے ہیں کہ سود کے بغیر ہمارا لین دین نہیں ہوتا، آئی ایم ایف سے ہم قرض لیتے ہیں اور پھر اس قرض کاسود ہی ہم سے ادا نہیں ہو پاتا اور پھر اس قرض کو اتارنے کیلئے ہم مزید قرض لیتے ہیں یعنی ایک ایسا سلسلہ ہے جس نے ہمیں اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ ہم چاہ کر بھی اس سے نکلنے کی راہ نہیں ڈھونڈپا رہے۔اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ سود اللہ تعالی کے ساتھ جنگ ہے اور یہ جنگ چاہے کوئی انفرادی سطح پر کرے یا مجموعی طور پر، اس کا انجام بھیانک ہو گا۔ کچھ لوگ یہ مثال دیتے ہیں کہ اگر یہ سودی نظام اتنا ہی برا ہے تو مغربی معاشرہ اتنی ترقی کیسے کر گیا تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی تو قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ اگر مجھے مسلمانوں کے پھسلنے کا خدشہ نہ ہوتا تو میں کافروں کے گھر سونے چاندی کے بنا دیتا۔ ہمیں اپنے معاشرے کو مسلم رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہمارا نصب العین ہی یہی ہونا چاہئے کہ معاشرے کو سود سے کیسے پاک کرنا ہے اور اس کیلئے کیسے کوششیں کرنی ہیں۔ آج بد قسمتی سے ہمارے ملک کی کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو ملک کو سود سے پاک کرنے کی کوشش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہو اور ہماری پارلیمنٹ میں اس طرح کی پالیسیاں ہی نہیں بنائی جاتیں کہ ہم سود سے پاک بینکاری کا نظام ہی نافذ کر دیں۔ سود کے ساتھ فحاشی و عریانی کو فروغ دیا جا رہا ہے جو کہ ہمارے معاشرے کیلئے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے اور اس کا ہی اثر ہے کہ ہمارے معاشرے میں بے راہ روی بڑھ چکی ہے، عزتیں نیلام کی جا رہی ہیں اور قانون کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ہمارے علماء کرام اور سیاسی رہنماؤں کی ترجیحات میں اور تو بہت کچھ آتا ہے لیکن انہیں معاشرے کے اس تاریک پہلو کو ختم کرنے کیلئے بھی کوششیں کرنی چاہیے کیوں کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی کی بدولت سینکڑوں نہیں ہزاروں گھرانے برباد ہو رہے ہیں، کیوں کہ آج کل کے اشتہارات، ڈرامے اور فلمیں جرائم کی نرسریاں بن چکی ہیں اور سینکڑوں واقعات سامنے آ چکے ہیں کہ جن میں جرائم میں ملوث افراد اقرار کر چکے ہیں کہ وہ فلموں ڈراموں سے متاثر ہو کر جرم کی راہ پر نکلے لیکن مجال ہے جو ہمارے حکمرانوں اور ہمارے سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے کان پر جوں بھی رینگے کہ وہ اس کیخلاف آواز بھی اٹھاتے ہوں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن جائے اور یہاں جرائم کا خاتمہ ہو یہ سود سے پاک ہو جائے تو اس کیلئے اصلاحات کی ضرورت ہے اور اس کیلئے رہنمائی ہمیں قرآن و حدیث سے لینی چاہئے، کیوں کہ اگر ہم اپنے معاشرے کو سود سے پاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے تحریک چلانا ہو گی، معاشرے کو بے ہودگی اور بے حیائی سے آلودہ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے قرآن و سنت کے نظام کو نافذ کرنا ہو گا اور ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ ہمارے بچوں کو اپنے دین کی سمجھ بوجھ حاصل ہو اور وہ فلموں ڈراموں کے ہیرو بننے کی بجائے قرآن و سنت کے عالم بنیں اور اس کیلئے معاشرے میں اصلاحی و سماجی تحریک کو جنم دینا ہو گا اور جس جانب ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے برسوں قبل نشاندہی کی تھی اس راہ پر چلنا ہو گا تب ہی ہم اپنے معاشرے کو صحیح معنوں میں اصلاحی و اسلامی معاشرہ بنا سکتے ہیں۔