ہمارا کشمیر: ہم کیا کر رہے ہیں؟

ہم بھارتی مقبوضہ کشمیر فی الاصل کھو چکے ہیں مودی سرکار نے جمہوری طریقے سے اپنے ملک میں رائج جمہوریت کے ذریعے ایکٹ آف پارلیمان کے ذریعے اپنے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے خصوصی سٹیٹس کو ختم کر کے اسے بھارتی یونین میں ضم کر لیا ہے گویا انہوں نے عملاً یہ ثابت کر دیا ہے کہ کشمیر اب مسئلہ نہیں ہے متنازعہ نہیں ہے پاکستان و بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر ختم کر دیا گیا ہے جہاں تک تعلق ہے عالمی رائے عامہ کا تو اس کی حیثیت کیا ہے۔ مسئلہ فلسطین پر اقوام عالم نے وضاحت کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ یروشلم تینوں مذاہب (اسلام، عیسائیت، یہودیت) کے لئے مقدس جگہ ہے اس لئے یہ تینوں اقوام یعنی مسلمان، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے کھلا رہے گا۔ بین الاقوامی اور بین المذہبی شہر رہے گا لیکن صہیونی ریاست اسرائیل نے کیا کیا؟ اس نے پورے کے پورے یروشلم کو اسرائیل میں ضم کر لیا، صرف یہی نہیں کیا بلکہ اپنا دارالحکومت، تل ابیب سے اٹھا کر یروشلم منتقل کر لیا۔ درجنوں ممالک اپنے سفارتخانے، یروشلم منتقل کر چکے ہیں۔ اسرائیل نے آگے بڑھ کر ٹکڑوں میں بٹی نحیف فلسطینی ریاست پر حملہ کر دیا۔ 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ پر جاری اسرائیلی بربریت اب بڑھتے ہوئے رفح پر اپنے منحوس سائے پھیلا رہی ہے۔ عالمی رائے عامہ کیا کر رہی ہے۔ ہزاروں فلسطینی شہید، لاکھوں زخمی و بے گھر ہو چکے ہیں اقوام عالم کو تو چھوڑیئے، عالم عرب اور عالم اسلام کیا کر رہا ہے؟
پاکستان کی بات کریں تو ہم بھارت کے ساتھ دشمنی نبھاتے نبھاتے اپنا مشرقی بازو کھو چکے ہیں موجودہ نسل کو تو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ کبھی مشرقی پاکستان بھی ہوتا تھا۔ بنگال ہمارا حصہ تھا ہمارا اٹوٹ انگ تھا اس وقت کے پاکستان کی 56 فیصد آبادی مشرقی پاکستان میں بستی تھی وہ لسانی، نسلی اور قومی ثقافتی اعتبار سے سب سے بڑی اکثریت تھی دور حاضر کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا کہ کسی ملک کی اکثریتی آبادی نے اقلیتی آبادی سے لڑ کر علیحدگی اختیار کی وگرنہ ہوتا تو یہ ہے کہ ہمیشہ اقلیت ہی اکثریت سے علیحدگی اختیار کرتی ہے عموماً اکثریت، اقلیت کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتی ہے جس کے باعث اقلیت مظلومیت کا روپ دھار لیتی ہے ہمارے کیس میں اس کے الٹ ہوا ہماری اشرافیہ نے اکثریت کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا، اکثریت میں دشمن کے ایجنٹوں نے راہ بنائی مکتی باہنی تشکیل دی، بھارتی را نے مداخلت کر کے ایک بھرپور تحریک تشکیل دی اور بالآخر سانحہ مشرقی پاکستان ہوا، کیا آج بھی حالات اسی قسم کے نظر نہیں آ رہے کہ ایک اقلیت اقتدار اور وسائل پر قابض ہے قومی وسائل کی بندر بانٹ کر رہی ہے عیاشیوں میں مصروف ہے جبکہ آبادی کی واضح اکثریت یعنی عوام پس رہے ہیں، مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ معیشت کا پہیہ رکا ہوا ہے، بے روز گاری عام ہے لوگوں کی آمدنیاں محدود اور قوت خرید بری طرح گھٹ چکی ہے۔ سیاسی افراتفری اور ریاستی ڈھانچے کی شکست و ریخت نے عوام کو نہ صرف اپنے حال سے بلکہ مستقبل سے بھی مایوس کر دیا ہے عام آدمی ملک کی بقا اور قیام کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہا ہے۔ داخلی افتراق و انتشار اپنے عروج پر ہے ایسے ہی حالات کو دیکھتے ہوئے بھارت سرکار نے اپنے زیر قبضہ کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کر ڈالا اور ہم کچھ بھی نہ کہہ سکے اور نہ کر سکے۔
اب جو کچھ ہمارے زیر انتظام کشمیر میں ہو رہا ہے کیا وہ الارمنگ نہیں۔ آزاد کشمیر میں ایک بغاوت کا سماں پیدا ہو چکا، ویسے تو 2021ء میں ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تھی لیکن وہاں انتشار ہی انتشار جاری رہا جو حالیہ دنوں میں بغاوت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے اقتصادی اور معاشی مسائل کا تو وہ ایسے ہی ہیں جیسے پاکستان میں ہیں وہاں کی انتظامیہ بھی ایسی ہی ہے آزاد کشمیر کو اسلام آباد سے کنٹرول کیا جاتا ہے پاکستان کے سیاسی حالات اور واقعات کشمیر کی صورتحال پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں تحریک انصاف نے جس طرح پاکستان میں انتشار پیدا کیا ہے بالکل ویسے ہی انہوں نے کشمیر میں انتشاری سیاسی و انتظامی کلچر فروغ دیا ہے جس کے نتیجے میں وہاں بغاوت کی سی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کشمیر ہمارے لئے اہم اور حساس خطہ ہے یہاں پر ہونے والے واقعات عالمی پریس میں جگہ پاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں جاری واقعات کو نہ صرف عالمی پریس میں ابھارا جا رہا ہے بلکہ بھارتی میڈیا، اسے قومی جذبے کے ساتھ پاکستان کی نالائقی ابھارنے کے لئے خوب ہوا دے رہا ہے ویسے تو 5 اگست کے بھارتی فیصلے کے بعد کشمیر کے ایشو پر پاکستان کی پوزیشن کمزور ہو چکی ہے حالیہ واقعات نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے بھارت اس پر بغلیں بجا رہا ہے۔ کشمیر میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات اچانک ہی وقوع پذیر نہیں ہوئے، بلکہ ایک عرصے سے یہ آگ سلگ رہی تھی وقت کے ساتھ ساتھ بھڑکتے ہوئے یہ شعلہ جوالا بنی ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز ادارے معاملات کو سمجھنے اور بروقت درست اقدام سے قاصر ہو چکے ہیں ویسے عوامی سہولیات فراہم کرنے والے ادارے، ہیلتھ، سینی ٹیشن، تعلیم وغیرہ ہم جیسے اداروں کی کارکردگی بارے کچھ کہنے، سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ نادرا لاکھوں پاسپورٹ جاری کرنے میں ناکام ہے۔ سائیلین سے فیس کی مد میں کروڑوں روپے وصول کر چکا ہے کوریئر کے اخراجات بھی لئے جا چکے ہیں لیکن لاکھوں پاسپورٹوں کا اجراء نہیں ہو سکا۔ پنجاب کا محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن بھی اسی بیماری کا شکار ہے۔ فیس وصول کرنے کے باوجود عوام کو نہ تو نمبر پلیٹیں مہیا کی جا سکی ہیں اور نہ ہی کار/ موٹر سائیکل کا ملکیتی کارڈ۔ لاکھوں سائلین کئی مہینوں سے رل رہے ہیں نمبر پلیٹوں کے اجراء کے لئے ٹھیکیدار سے جھگڑا چل رہا ہے۔ کارڈ کے اجراء میں خصوصی میٹریل کی عدم دستیابی رکاوٹ ہے سرکاری محکمے اپنی فیس اور دیگر واجبات ٹھیک ٹھیک وصول کرنے میں طاق ہیں رشوت کی وصولی بھی بڑے پیشہ وارانہ انداز میں وصول کی جاتی ہے لیکن جب سروس ڈیلیوری کی بات ہوتی ہے تو معاملات بالکل ہی دگرگوں ہو جاتے ہیں۔ سرکاری افسروں کے بارے میں رائے پائی جاتی ہے کہ وہ رج کے نالائق، کرپٹ اور بدنیت ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل سے نمٹنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ سرکاری محکموں سے عوام کا اعتماد اٹھ چکا جس کا ہے عوام سمجھتے ہیں کہ ان کا کوئی بھی پرسان حال نہیں،محکموں، کارپوریشنوں، اتھارٹیز اور دیگر سرکاری اداروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے لیکن ان کی سروس ڈیلیوری زوال پذیر ہے اس وقت ہم اپنی قومی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں جب معاشی معاملات مکمل طور پر پستی اور بد حالی کا شکار ہیں نفسانفسی کا عالم ہے عوام ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں سیاسی ابتری کا دور دورہ ہے کرپشن تو اپنے عروج پر ہے ہی نالائقی اور ناکارکردگی بھی جوبن پر ہے معاشی نمو کا پہیہ رکا ہوا ہے قرض خواہ ہمارے اعصاب پر سوار ہیں ایسے میں پاکستان کے حساس ترین علاقے، کشمیر میں پر تشدد تحریک لمحہ فکریہ ہی نہیں بلکہ پریشان کن بات ہے دشمن ہمیں ہلاک کرنے کے لئے طاق لگائے بیٹھا ہے۔ ہوش کے ناخن لینا ضروری۔