دور حاضر میں مسلمانوں کا مسئلہ

دور حاضر میں مسلمانوں کا مسئلہ
دور حاضر میں مسلمانوں کا مسئلہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 یہ بات کتنی افسوس ناک ہے کہ اسلامی ریاست قائم کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کا فہم دین ہی ناقص ہے۔ قرآن کریم کی عمیق باتیں تو درکنار ہم اس کے قصائص کو بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جب شیطان مردود کا آدم کو سجدہ نہ کرنے پر جو مکالمہ رب قادر سے ہوا، اُس میں چھپی ہوئی ایک سادہ سی بات کو بھی ہم سمجھ نہ پائے۔ جب شیطان رجیم نے اللہ تعالیٰ کو چیلنج پیش کرنے کی جسارت کی کہ میں تیرے خاص الخاص بندوں کے سوا تجھے ماننے والوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جاﺅں گا۔ میں اُن پر ہر سمت اور ہر پہلو سے حملہ آور ہوں گا اور نہ پائے گا تُو اُن میں سے اکثر کو شکرگزار۔
اللہ تعالیٰ نے اُس کا چیلنج قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے چاہنے والے تمہارے پیچھے نہ جائیں گے۔ یہی وہ بات ہے جس کو نہ سمجھنے پر ملعون شیطان اسی لمحہ ہی مات کھا گیا۔ سمجھنے کی بات یہ تھی کہ اللہ جل    جلا         لہ تعداد (ity)       کی تو با    ت ہی نہیں    کررہا تھا اُ س کا مطمح نظر معیار        (Quality) تھا۔ شیطان مردود تو اُسی وقت سے انسانوں کی تعداد اور مقدار کے چکر میں پھنسا ہوا ہے اور اس میں وہ بے شک ظاہراً کامیاب ہو رہا ہے مگر اس کو یہ احساس نہیں کہ وہ ایک غلط کھیل کھیل رہا ہے جس میں ناکامی ہی اس کی تقدیر ہے۔ بے شک شیطان مردود کروڑوں انسانوں کو مختلف طریقوں سے گمراہ کر کے خوش و خرم ہے کہ وہ کامیاب ہو رہا ہے جبکہ شکست فاش ہی اس کا مقدر ہے۔ یہاں پر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی صرف معدودے چند لوگوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ اس کا مطمح نظر یہ ہے کہ اس کے بے شمار چاہنے والے شیطان کے نرغے میں نہ آئیں۔ دیکھئے قرآنی آیات: (سورة الاعراف، آیت 16،17؛ سورة الحجر، آیت 36 تا 43؛ سورة ص، 82 تا 85)۔
ہم جمہوریت کی رٹ لگائے رہتے ہیں۔ جمہوریت ہی کو اپنے سب دکھوں کا مداوا سمجھتے ہیں حالانکہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کا التباس جمہوریت ہی ہماری سب خرابیوں کا باعث ہیں۔ جمہوریت کا دارومدار تعداد اور اکثریت پر ہے، اعلیٰ معیار پر نہیں، جبکہ اللہ کے پیش نظر تو صرف اعلیٰ معیار، اعلیٰ اخلاق، اعلیٰ چال چلن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کو علم و عقل سے محروم اور بے خبر قرار دیا ہے (سورة العنکبوت آیت 63 ؛ سورة المائدہ آیت 103؛ الاعراف آیت 131؛ الانفال آیت 34 )۔
ہم اپنے معاشرتی اور سیاسی نظام کا دارومدار اس شے پر رکھ رہے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا ہے۔ تمام مسلمان ریاستوں کی حکومتوں کا مطمح نظر ووٹ حاصل کر کے اقتدار حاصل کرنا ہے۔ اُن کا کوئی پروگرام خواص پیدا کرنے کی طرف رجوع نہیں کر رہا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے پروگرام پر چلنے کی بجائے شیطان کے پروگرام پر چل رہے ہیں۔ دونوں سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت شیطانی کھیل ہی تو ہیں جن میں نہ تو عوام کی فلاح ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی۔ جمہوریت کا دارومدار عوام کی ووٹنگ پر ہے جبکہ اسلام صالحین کی مشاورت کو پسند کرتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم کس اسلام کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں کیونکہ ہم اللہ جل جلالہ کی بتائی ہوئی ہدایت مبین پر نہیں چل رہے بلکہ اس کے برعکس شیطان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی ہمارا وہی حال کر رہا ہے جو شیطان کے پیروکاروں کا ہونا چاہئے۔ مسلمان ہی مسلمانوں کی قتل و غارت کر رہے ہیں، اللہ والوں کے مقابر کو تباہ کیا جا رہا ہے اور مساجد میں مسلمانوں کی کھڑی صفوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ ایسے نظر آ رہا ہے کہ اب تو امر ربی ہی ہمیں اس لعنت سے نجات دلا سکتا ہے جس میں ہم گردنوں تک پھنسے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں اسلام فلاح و بہبود کا منبع بننے کی بجائے عوام کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ دینی اکابرین اور علماءکا ناقص فہم دین اور ان کا مفاد پرستانہ اور منافقانہ رویہ ہے۔ پاکستان میں اسلام کے مستقبل کے ناطے سے جو شے مجھے پریشان کئے ہوئے ہے‘ وہ ہے ہما   ر   ے    فکر              اسلامی میں انحطاط۔ اسلام کے         1200 سالہ عروج کے دوران میں جس شے نے مرکزی کردار ادا کیا وہ فکر اسلامی ہی تھا۔ حیرت ہے کہ اس دور میں فکر اسلامی اور قانون اسلامی کا تقریباً کلی دارومدار اسلامی معاشرہ (سول سوسائٹی) پر تھا نہ کہ ریاست پر۔ بلکہ اسلامی معاشرہ نے ریاست کو اس دائرہ میں دخل اندازی کا کبھی حق نہ دیا۔ آج کے دور میں جبکہ مسلمان ایمان کی کمزوری اور اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں تو وہ چلا چلا کر ریاست کو ان کے اوپر اسلام کو نافذ کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اسلام کوئی مجرد نظریہ نہیں ہے۔ اس کا نفاذ تبھی ہو گا جب یہ ہماری زندگیوں میں نفوذ کرے گا۔ بقول سید قطب مصری: ”شریعت اسلامی معاشرہ قائم نہیں کرتی بلکہ اسلامی معاشرہ شریعت کو قائم کرتا ہے۔“
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں وہ لوگ کبھی بھی کامیاب نہ ہوئے جو کسی خطہ میں اسلامی نظام کو رائج کرنا چاہتے تھے۔ اسلامی معاشرہ کبھی بھی اسلامی جماعتوں یا تحریکوں کے                             ذریعے قائم نہیںہوا۔ اسلامی معاشرہ صرف ان افعال و افکار اور محسوسات کی ضمنی پید                             اوار ( by product) کے طور پر ابھر سکتا ہے جن کا مقصد انسانی زندگی کے حوا                                                                                                         دث سے وراءاللہ کی خوشنودی کا حصول ہو۔ والذین جاھدوا فینا لنھدینہم سبلنا (سورة 92 آیت 96: اور وہ لوگ جو جدوجہد کرتے ہیں ہماری خا      طر تو ہم ضرور دکھائیں گے انہیں اپنے راستے)کا تعلق جتنا تقویٰ و پارسائی سے ہے اتنا ہی سیاسی عمل سے بھی ہے۔ لہٰذا نرے عملی اقدامات بلکہ اعمال و افعال کی بڑی سے بڑی تعداد بھی ہمارے مسائل اس وقت تک حل نہیں کر سکتی جب تک اس میں یہ بنیادی شرط مفقود رہے گی مگر ہم منافقت میں اپنی ترجیحات اور عقائد کا کھل کر اعلان نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک ذہنی دھندلکے میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اسلام کا مرکزی اصول اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے اور یہ خوشنودی اللہ تعالیٰ کے دیئے گئے اصولوں اور احکامات پر بعینہ عمل کر کے حاصل ہوتی ہے۔اسلام اللہ تعالیٰ کا دین ہے کوئی نظام نہیں۔ جب ہمارے علماءنے اللہ کے دین کو ایک نظام بنا دیا اور یہ زمینی حقائق اور معاملات میں قید ہو کے رہ گیا اور لوگوں کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے کٹ گیا۔
اسلامی نظریاتی تحریک کا ماڈل اس کے علاوہ اور کچھ ہو بھی نہیں سکتا کہ وہ مومنین اور صالحین کی ایک مختصر سی جماعت (Party Cader) کے ذریعے پوری مسلمان قوم کو متحرک کر کے سیاسی غلبہ حاصل کر لے اور قانون اسلام نافذ کر کے باقی ماندہ قوم کی اصلاح کر دے۔ اس طرح اسلامی نظریاتی تحریک کا مطمح نظر نفاذ اسلام ہوتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے بقول جماعت اسلامی مذہبی تبلیغ کرنے والے واعظین اور مبشرین کی جماعت نہیں بلکہ خدائی فوجداروں کی ایک جماعت ہے اور جو کام جماعت نے اپنے ذمہ لیا ہے وہ حکومت کے اقتدار پر قبضہ کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس کے برعکس علامہ محمد اقبال احیائے اسلام کے لئے ثقافتی تحریک کو چُنتے ہیں جس کا مطمح نظر نفوذ اسلام ہوتا ہے۔ ثقافتی تحریک کا مقصود جمہور کی فکری‘ معاشی اور سیاسی اصلاح کے ذریعے تبدیلی لانا ہوتا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ جب معاشرے فکر و عمل کے میدان میں پسماندہ ہو جاتے ہیں تو وہ کارگر عمل کرنے کی بجائے لفظوں اور نعروں پر انحصار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس دور میں جب اسلامی معاشرے ہر طرح سے ناکام ہو چکے ہیں اور اُن میں چوری اور راہزنی، بد اعمالی اور رشوت ستانی، قتل و غارت اور دہشت گردی سکہ مروجہ بن چکے ہیں تو ہر طرف سے نفاذ خلافت کے نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ دراصل سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ وہاں قائم ہوتا ہے، جہاں پر اللہ والے جمع ہو جائیں۔
پاکستان میں ہمارا بنیادی مسئلہ نفاذ اسلام کا ہے یا دوسرے الفاظ میں اسلامی ریاست کے قیام کا ہے۔ نفاذ اسلام یا اسلامی ریاست کے قیام پر اس قدر شور و غوغا کے برعکس ان کے متعلق ہمارا فہم ناقص اور فرسودہ ہے۔ اسلامی اصطلاحوں کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے ہم عموماً غلط بحثوں میں پڑے رہتے ہیں اور حقیقت شفاف ہونے کی بجائے مزید دھندلا جاتی ہے۔ ہماری کم فہمی کا تو یہ عالم ہے کہ ہم ”خلافت“ کو ”اسلامی ریاست“ سے مختلف شے تصور کرتے ہیں۔ خلافت کی اصطلاح اسلامی اصولوں پر قائم شدہ ریاست کے لئے استعمال ہوتی ہے اور امامت یا امارت سے مراد وہ گورنمنٹ ہوتی ہے، جو خلافت کے ارادوں کی تنفیذ اور اس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں جو فرق سٹیٹ اور گورنمنٹ کے درمیان ہے اسی قسم کا فرق خلافت اور امامت و امارت کے درمیان ہے۔
ہمارے علماءاور دینی زعما منطق کی غلط علتوں کا شکار ہیں۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اصل بات باطن کی سیرت سازی کی ہے نہ کہ خارجی ڈھانچوں کے نعرے لگانے کی۔ قیام خلافت کے پُرجوش نعرے لگانے والے یہ بات بالکل بھول جاتے ہیں کہ قیام خلافت کے لئے صلاحیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ خلافتِ راشدہ کی اساس خلفاءراشدین کے عظیم اخلاق و کردار پر تھی۔ ہمارے معاشرہ کی توجہ اس طرف مبذول نہیں ہو رہی کہ اگر ہم نے ایک اسلامی ریاست یا خلافت قائم کرنی ہے تو ہمارا مقصد ایسے کامل اور جامع انسان پیدا کرنے کا ہونا چاہئے جو مسجود ملائکہ بننے کے اہل ہوں۔
ہمیں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ اسلامی معاشی نظام ایک اسلامی معاشرہ میں ہی قائم ہو سکتا ہے اور اسلامی معاشرہ تبھی قائم ہوتا ہے جبکہ لوگوں کے دل بدل جائیں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہو جائے۔ دراصل عربی لغت دلوں کے بدلنے ہی کو انقلاب کا نام دیتی ہے۔    ٭

مزید :

کالم -