کربلا سے کرب و بلا تک
میرے خیال کا تشنہ فرات حسین ؓ کے لبوں کو ترس رہا ہے ۔ میرا دل فگار ہے اور میری آنکھیں اشکبار ، سوچ سمندر ڈوب جانے کو ہے ، قلب ِ حزیںکی اک ایک دھڑکن نوحہ گری کر رہی ہے ۔ لفظ ہیں کہ بے معنی ہوئے جاتے ہیں۔ قلم ہے کہ اس پر لرزہ طاری ہے ۔ آج پھر 10محرم الحرام ہے.... اور کون نہیں جانتا کہ 10محرم الحرام کو کیا ہوا تھا ؟ کربلا کی مٹی گواہ ہے ، فرات کے کنارے گواہ ہیں، کائنات کا خدا شاہد ہے کہ اس دن ، ہادی کامل ، بندئہ اعظم ، خاتم الانبیاء، حضرت اقدس ِ محمد ِ مصطفی ﷺ کے پیارے نواسے ، امام ِ عالی مقام ، حضرت امام حسین ؓ کو یزیدی تیغ سے شہید کر دیا گیا تھا ۔ حضرت امام حسین ؓ سے پہلے بھی دنیا میں لاکھوں لوگ شہید ہوئے ہوں گے اور اس ؓ کے بعد بھی ....مگر آپ ؓ کی شہادت امتِ مسلمہ کے لئے ایک ایسا درس ہے جس کے نتیجے میں ہر دور کی یزیدی قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہونا لازم قرار پاتا ہے ۔
آپ ؓ نے کوفہ کا سفر اختیار کرتے وقت فرمایا تھا کہ ”مَیں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے یا فساد پھیلانے کے لئے نہیں جارہا ، بلکہ میرا مقصد امتِ مسلمہ کی اصلاح اور اپنے نانا پیغمبر اسلام ﷺ اور اپنے والد حضرت علی ؓ کی سنت پر چلنا ہے.... “آپ ؓ نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ التجا پیش کی تھی کہ ” اے اللہ ! مَیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بہت دوست رکھتا ہوں “.... امامِ عالی مقام حضرت امام حسین ؓ فرمایا کرتے تھے کہ ” مَیں دیکھ رہا ہوں کہ اچھی باتوں پر عمل نہیں کیا جارہا اور برائیوں سے روکا نہیں جارہا“۔ آپ ؓ اپنی شہادت کا تذکرہ اپنے نانا ، کُل نبیوں کے سردار ، حضرت محمد ﷺ کے لبوں سے بچپن سے سنتے چلے آرہے تھے، چنانچہ آپ ؓ نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر انسان کی عظمت رفتہ کی بحالی ، اسلام کی سربلندی ، امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کا پیغام منکروں تک پہنچانے کے لئے مقتل کی طرف اپنے قدم اٹھالئے ۔ اپنے زمانے کے تمام سیاسی تقاضوں اور مصلحتوں کو اپنے پاﺅں کی ٹھوکر پر رکھا ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے پیغام کو اپنے شانوں پر رکھ کر اس شخص کو للکار دیا ،جس کی مملکت کی سرحدیں طول و عرض تک پھیلی ہوئی تھیں ،جو اپنے وقت کا طاقتور حاکم اور تکبر و نخوت کا پیکر تھا ۔ آپ ؓ نے ظلم و جبر کے آگے جھکنے پر موت کو ترجیح دی ۔
آپ ؓ فرمایا کرتے تھے کہ ” موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے “۔آ ج بھی یزیدی فکر دنیا میں رائج ہے اور یہی فکر پروان چڑھ رہی ہے ۔ عصر ِ بیماریہ تقاضا کر رہا ہے کہ جس طرح کل امامِ عالی مقام حضرت امام حسین ؓامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تبلیغ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، آج ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر اہل ِ ایمان کو عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج ایک ایسے معاشرے کی ضرورت ہے، جہاں کوئی طاقتور کسی کمزور پر ظلم نہ کر سکے ، جہاں برائی کو اچھائی پر ترجیح نہ دی جائے، جہاں یتیموں کا حق نہ کھایا جائے ¾جہاں مظلوموں کو انصاف ، بھوکوں کو روٹی ، پیاسوں کو پانی اور ظالموں کو سزا ملتی ہو ۔ کربلا ایک ایسی آزمائش گاہ تھی جہاں پر مسلمانوں کے ایمان ، دینی پابندی و حق پرستی کے دعوﺅں کو پرکھا جارہا تھا ۔
حضرت امام حسین ؓ نے خود فرمایا تھا کہ ” لوگ دنیا پرست ہیں ، جب آزمائش کی جاتی ہے تو دیندار کم نکلتے ہیں“۔کربلا محض شجاعت و بہادری کا میدان نہیں تھا ،بلکہ واقعہ کربلا سماجی تربیت ، وعظ و نصیحت کا مرکز بھی گردانا جاتا ہے ۔ شہادت حسین ؓ میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ حضرت امام حسین ؓ نے شجاعت ، ایثار اور اخلاص کے سائے میں اسلام کو نجات دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بیدار کیا ۔ لوگوں کی فکری و ذہنی سوچ کو بلند کیا تاکہ یہ سماجی و جہادی تحریک اپنے نتیجے کو حاصل کرکے نجات بخش بن سکے ۔ واقعہ کربلا سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ محض اسلام کی سربلندی اور حق و صداقت کی آواز بلند کرنے کے لئے ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تبلیغ کی خاطر اپنی تو کیا اپنے پیاروں کی جان کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کی سربلندی کی خاطر جو تاریخ حضرت امام حسین ؓ اور آپ ؓ کے جاں نثاروں نے رقم کی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔
کتابوں میں لکھا ہے کہ کربلا کے میدان میں آپ ؓ پر آنے والی مصیبت جیسے جیسے بڑھتی جاتی، اسی طرح آپؓ کے وقار و تمکنت میں اضافہ ہوتا جاتا اور چہرے کی تابندگی بڑھتی جاتی تھی ۔ علامہ سبط ابن جوزی نے تذکرة الخواص میں لکھا ہے کہ آپ ؓ کے جسدِ اطہر پر نیزوں کے 33زخم اورتلواروں کے 34زخم تھے اور آپ ؓ کے پیرہن شریف میں 121سوراخ تیروں کے تھے، جبکہ تاریخ کی دیگر کتب میں آپ کے جسد اطہر پر لگنے والے زخموں کی تعداد ایک ہزار نوسو بھی بیان ہوئی ہے، مگر یہ تمام زخم آپ ؓ کے جسم مبارک کے اگلے حصے میں تھے ۔ پشت مبارک کی جانب کوئی زخم نہیں تھا ۔ آپ ؓ کے فرزندِ اکبر حضرت امام زین العابدین ؓ واقعہ کربلا کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ جیسے جیسے مصائب شدت اختیار کرتے ، چہرئہ مبارک کی تجلی میں اضافہ ہوتا اور دشمن ایک دوسرے کو کہتے تھے کہ ” دیکھو اس انسان کو ،اسے موت کا کوئی خوف نہیں “.... آپ ؓ نے تین دن کی بھوک و پیاس ، عزیز وانصار کی شہادت کے باوجود شجاعت کے وہ جوہر دکھائے، جنہیں دیکھ کر بہادروں کے جگر کا نپنے لگے ، شہسواروں کی عقلیں دنگ رہ گئیں اور ظالموں کے دماغوں سے طاقت ِ فہم پر واز کر گئی ۔
آپ ؓ نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر یقین ِ محکم اور مقصد نیک ہو تو راہِ حق میں آنے والے مصائب و آلام اور باطل قوتوں کی دولت و طاقت کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ آپ ؓ کی شجاعت و جرا¿ت ، صبر اور استقلال رہتی دنیا تک مظلوم اور استحصال زدہ قوموں کے لئے ایک جامع پیغام بن کر جوازِ زندگی مہیا کر تی رہے گی ۔ آج دنیا کے تمام معاشرے امام عالی مقام حضرت حسین ؓ ابن علی ؓ کے اس پیغام کو اگر اپنی قومی زندگیوں میں رائج نہیں کریں گے تو وہ یزیدی دور کے غلام بن کر نہ اپنی دنیا سنوار سکیں گے اور نہ ہی اپنی عاقبت ۔ آج کے استحصالی معاشروں کے کرب و بلا کو دےکھ کر ےہ اشعار بے اختےار لبوں پر مچل جاتے ہےں :
تمام عالمِ اسلام کا ہےں سرماےہ
نصابِ دےن مےں ےہ برتری حسےنؓ کی ہے
پےا جو جامِ شہادت تو مسکرا کے پےا
ندےم دےکھ ےہ مردانگی حسےنؓ کی ہے