بلدیاتی نظام کیوں ضروری ؟

بلدیاتی نظام کیوں ضروری ؟
 بلدیاتی نظام کیوں ضروری ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بعد صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی بھی میدان میں کود پڑی ہے اور تاریخ میں توسیع کا مطالبہ کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ ایک عرصے سے توجہ دلا رہی تھی کہ بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں، لیکن صوبائی حکومتیں اس توجہ سے عاری نظر آرہی تھیں، جس کے بعد سپریم کورٹ نے تاریخوں کا اعلان کر دیا۔ مشرف دور کے بعد بلدیاتی اداروں کے انتخابات سے صرف نظر کیا گیا اور سرکاری افسران کو بلدیاتی ادارے چلانے کی ذمہ داری سونپی جاتی رہی۔ افسران نے بلدیاتی اداروں کو جو حشر کیا ہے وہ تمام صوبوں میں اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے۔ جب کوئی اندھا شخص سڑک پر چل رہا ہوتا ہے اور گندا پانی اس کے پاﺅں میں لگتا ہے تو وہ بھی بلدیاتی اداروں کو کوسنے لگتا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ جمہوری حکومتیں پاکستان میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کو ٹالتی رہتی ہیں ، حالانکہ بلدیاتی ادارے حکومت اور عوام کے درمیاں اہم ترین پل کا کام کرتے ہیں اور جھٹکا برداشت کرنے والے شاک ابزاربریا کشن کا کام انجام دیتے ہیں اور عوام کے مسائل حل کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ گلی کوچوں کی صفائی ستھرائی، صحت کی بنیادی ضرورتوں، پینے کے لئے صاف پانی کی فراہمی، کھانے پینے کی اشیاء کے معیار اور فروخت پر نظر رکھنا و دیگر امور ان کی ذمہ داری کا حصہ ہوتے ہیں۔
انگریز نے جب برصغیر میں اپنی حکومت کا آغاز کیا تھا تو پہلے مرحلے پر جن اقدامات پر عمل کیا گیا تھا ان میں پولس، عدالت اور بلدیاتی اداروں کے قیام کو فوقیت دی گئی تھی۔ جینے مرنے کے تمام کاموں کی ذمہ داری بلدیاتی اداروں کے فرائض کا حصہ تھیں۔ ایوب خان کی بنیادی جمہوریت والے دور تک پرائمری تعلیم، معذور بچوں کی تعلیم اور دیکھ بھال، لائبریریوں کا انتظام، علاج و معالجہ کے لئے ڈسپینسریاں، بیماریوں کے ٹیکے، پینے کے صاف پانی کی فراہمی وغیرہ بلدیاتی اداروں کو ہی ذمہ داری ہوا کرتی تھی ۔ صفائی ستھرائی کے کام تو ان کی اولین ذمہ داری ہوا کرتی تھیں۔ بعد میں آنے والے حکومتوں نے یکے بعد دیگرے ذمہ داریاں خود سنبھال لیں اور بلدیاتی اداروں کو غیر شعوری طور پر بری الذمہ کیا جاتا رہا۔ ایوب خان کے بعد قائم ہونے والی جمہوری حکومتوں نے توجہ نہیں دی پھر غیر جمہوری حکومت قائم ہوئی تو اس نے بھی بلدیاتی اداروں کو ان کی بنیادی ذمہ داری انجام دینے پر مجبور نہیں کیا۔
جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے دو قدم آگے بڑھ کر بلدیاتی اداروں کو ضلعی حکومتوں میں تبدیل کر دیا اور انہیں اپنے اپنے علاقوں میں تمام ترقیاتی کاموں کو سرانجام دینے کا بھی فریضہ سونپ دیا۔ صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے اراکین کی بڑی تعداد کو ضلعی حکومتیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں، حالانکہ درجنوں ناظم اور نائب ناظم بھی اس نظام پر تنقید کرنے والوں میں شامل تھے یا بوجوہ خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔ سندھ میں کئی اراکین اسمبلی تو براہ راست ان لوگوں میں شامل تھے ،جنہوں نے ضلعی حکومتوں کے نظام سے سیاسی استفادہ کیا، لیکن جب پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ہی اس نظام کو مطعون قرار دے رہے تھے تو یہ لوگ خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔ ضلعی حکومتوں کے نظام پر تنقید کرنے والوں کو اعتراض اس بات پر تھا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو بائی پاس کر کے ضلعی حکومتوں کو فنڈ براہ راست کیوں دے رہی تھی۔

 جنرل ضیاءکے مارشل لاءکے بعد ہونے والے انتخابات میں منتخب ہونے والے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو ان کے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈ مختص کئے گئے اس وقت سے اراکین نے اپنے آپ کو کونسلر بھی تصور کر لیا۔ بڑے ترقیاتی کاموں کے ساتھ ساتھ نالی اور سڑک کی تعمیر بھی، انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کا حصہ سمجھ لیا اور ملکی نظام چلانے کے لئے قا نون سازی جس کے لئے انہیں منتخب کیا جاتا ہے، اس سے دست بردار ہو گئے۔ انتظامیہ نے جو قانون بنا دیا اسے من و عن منظور کرنے کی ”خطا“ سر انجام دے کر سرخ روئی حاصل کرنے لگے۔ ضلعی حکومتوں کا نظام بعد میں اس قدر متنازعہ بنا دیا گیا کہ سندھ میں تو پیپلز پارٹی کی حکومت ذہن ہی نہیں بنا سکی کہ بلدیاتی اداروں کو چلانے کا نظام کیا اور کیوں ہونا چاہئے ۔ غیر ضروری طور پر یہ مسئلہ طوالت اختیار کرتا گیا۔ جمہوری حکومتیں کبھی بھی یہ نہیں سمجھ سکیں کہ غیر جمہوری اور غیر آئینی طور پر اقتدار پر فائز ہونے والوں نے جمہوری حکومتوں کی بلدیاتی انتخابات کو مسلسل موخر کرنے کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور اپنے اقدامات کی عدالتوں سے توثیق حاصل کرنے کے بعد بلدیاتی اداروں کا نظام متعارف کرایا، تاکہ عوام کی سطح پر بھی وہ پزیرائی حاصل کرسکیں۔
جمہوری حکومتوں کو بلدیاتی اداروں کے نظام اور قوانین کو مستحکم کرنا چاہئے، تاکہ کسی بھی سیاسی جماعت یا جماعتوں کی حکومتیں ہوں ، عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لئے ان کی طرف نہ دیکھنا پڑے اور ملک میں عوام الناس کی ضروریات اور فلاح و بہبود کا کام جاری رہے۔ بلدیاتی ادارے جہاں حکومت اور عوام کے درمیان پل کا کردار انجام دیتے ہیں وہیں یہ ایک اور اہم ترین ان دیکھی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ ان اداروں میں عوام کی نمائندگی کے لئے منتخب افراد کی ان اداروں میں ہی سیاسی تربیت ہوتی ہے جہاں وہ بحث و مباحثہ اور ا سمبلی کارروائی کا سبق سیکھتے ہیں اور پھر صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی رکنیت کے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں ۔ ایوب خان کے دور میں بلدیاتی ا داروں کے اکثر اراکین ہی عام انتخابات میں حصہ لے کر منتخب ہوئے تھے۔
سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ ان کی اہم مثال ہیں۔ وہ ایوب دور میں ضلع کونسل کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ پاکستان میں جہاں بلدیاتی اداروں جیسی اہم ترین سیاسی نرسری کو نظرانداز کیا گیا اسی طرح تعلیمی اداروں میں طلباءیونینوں کے انتخابات پر پابندی عائد کر دی گئی ۔ کئی عذر اختیار کئے گئے، حالانکہ یونین کے انتخابات بھی نوجوانوں کی سیاسی تربیت کا بہترین ذریعہ ثابت ہوتے تھے۔ اس تماش گاہ میں ہونا تو یہ چاہئے کہ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں یونینوں کی بحالی فوری کی جائے اور قومی اور صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کر کے حکومتوں کو پابند کریں، تاکہ ایک مقررہ مدت کے بعد بلدیاتی انتخابات خود کار طور پر عمل میں لائے جا سکیں۔ اس سے فرار ممکن نہیں ہے۔ فرار کی ہر کوشش حکومتوں اور عوام الناس کے درمیاں خلیج ہی پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔      ٭

مزید :

کالم -