نواز شریف کو ایک مفت مشورہ

نواز شریف کو ایک مفت مشورہ
نواز شریف کو ایک مفت مشورہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

الیکشن 2018میں ہوتا ہے یا پہلے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ بہرحا ل یہ پاکستان ہے۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ عدالت کی مداخلت کے بعد وہ ہلچل اور غل غپاڑہ نظر نہیں آرہا جس سے عوام اپنا دِل بہلارہے تھے۔جناب چیف جسٹس نے سیاسی منظر نامے میں داخل ہوکر رونق میلہ ختم کردیا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے غل غپاڑہ کرتی ہوئی کلاس میں اچانک ہیڈ ماسٹر آجائے تو خاموشی چھا جاتی ہے۔بالکل وہی نقشہ بنا ہوا ہے جو مرحوم ضیاالحق کے مشہورِ زمانہ ریفرنڈم کے وقت تھا۔ بہت سے لوگوں نے ووٹ ڈالنے کا فریضہ کراماً کاتبین کے سپرد کردیا تھا اور خود غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھر میں بیٹھے رہے یا عزیز و اقارب کو ملنے چلے گئے ۔ وہ تو خدا کا شکرہوا کہ کراماً کاتبین فرض شناس نکلے ورنہ ریفرنڈم جیسی اعلیٰ سکیم کی ناکامی کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ نئی نسل کو مردِ حق ضیاء الحق کے ریفرنڈم کا پس منظر معلوم نہیں ہوگا۔ ان کی معلومات کی خاطر میں یہاں ریفرنڈم کے الفاظ لکھ دیتا ہوں ۔ اس زمانے کے عوام نے ریفرنڈم کے فقرے کے سامنے "ہاں " یا "نہیں" لکھنا تھا۔ فقرہ ملاحظہ فرمایئے اور ضیاء الحق کی ذہانت کی داد دیجئے۔ فقرہ یہ تھا:
(1) کیا آپ چاہتے ہیں کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ ہو؟ ہاں / نہیں
(2)اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ آپ اسلامی نظام نافذ کرنے کے لئے صدر ضیاء الحق کو حکمرانی کے لئے مزید پانچ سال دیتے ہیں۔


جناب نواز شریف کو چاہیے کہ وہ جنرل ضیاء الحق کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ملک میں ایک ریفرنڈم کروائیں جو یہ ہو کہ" کیا آپ چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوری نظام مستحکم ہو؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ آپ جناب نواز شریف کو حکمرانی کے لئے مزید پانچ سال دیتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ جناب نواز شریف کو ابھی تک یہ تجویز کیوں نہیں سوجھی۔ جہاں تک کمترین کا تعلق ہے۔کمترین کو مرحوم ضیاالحق سے بہت محبت تھی۔ چنانچہ میں ان کے یعنی اسلام کے حق میں ووٹ ڈالنے گیا تھا۔ پولنگ سٹیشن پر پہنچ کر یوں لگا تھا جیسے سارا عملہ میرے ہی انتظار میں مکھیاں مار رہا تھا۔مجھے دیکھتے ہی ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں کے چہرے پر ایسی دلکش مسکراہٹ نمودار ہوئی جو اس سے پہلے یا بعد میں پولیس والوں کے چہروں پر کبھی نہ دیکھی گئی۔مجھے یوں لگا جیسے میں ایک حقیر ووٹر نہیں، بلکہ کم از کم ڈی ایس پی ہوں۔ ایک ویران سی راہ گزر پر اپنے قدموں کے نشان ثبت کرتے ہوئے میں ایک ہال کمرے میں داخل ہوا ۔ پریزائیڈنگ افسر جو آدھا دھڑ کرسی پر اور آدھا سامنے پڑی میز پر رکھے ہوئے غنودگی کے عالم میں تھا، اچانک یوں چونکا جیسے اس نے کوئی بھیانک خواب دیکھ لیا ہو۔ غالباً وہ ہمیں ریٹرننگ آفیسر سمجھا تھا کیونکہ وہاں کسی ووٹرکے آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ خواب میں جاگا تھا اور ہنوز خواب میں تھا، تاہم سچ مچ جاگنے کے بعد جب اس نے کمترین کی مسکین شکل اور مسکین تر حلیہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ کمترین کا تعلق حقیر ترین طبقے یعنی رائے دہندگان کی نچلی سطح سے ہے، تاہم اس وقت اس مردِ خدا نے مجھے وی آئی پی Treatment دیا۔ اس کے عملے نے بھی آؤ بھگت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ حتیٰ کہ جب کسی نے میرے ا نگوٹھے کو سیاہی سے آلودہ کیا تو نہ صرف اس نے بلکہ پریزائیڈنگ افسر نے بھی گڑ گڑا کر معذرت کی کہ قانونی مجبوری تھی ورنہ وہ کبھی ایسی گستاخی کے مرتکب نہ ہوتے۔ ایک پولنگ افسر نے مشورہ دیا کہ آپ گھر جا کر لیموں سے یہ نشان دھوڈالیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ہم خود آپ کی خدمت میں لیموں پیش کردیتے، لیکن ووٹر کو لیموں پیش کرنا قانوناً ممنوع ہے۔ لیموں سے نشان صاف کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ آپ دوبارہ ووٹ دے سکتے ہیں۔ قصہ مختصرمیں نے ووٹ دیا ۔ اس دوران تمام عملہ نہایت احترام اور تشکر سے مجھے واچ کرتا رہا۔ووٹ ڈالنے کے بعد میں نے اجازت چاہی۔ سب نے دوبارہ آنے کی دعوت دیتے ہوئے بڑے تپاک سے ، باچشم نم مجھے رخصت کیا۔ جاتے وقت میرے کان میں یہ الفاظ پڑے:
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا
باہر نکلا تو مجھے تین چار اخباری نمائندوں نے گھیر لیا۔
"آپ ووٹ دے کر آرہے ہیں؟"
"تو اور کیا ووٹ لیکر آرہا ہوں؟"میں نے قدرے ناراضگی سے کہا۔
"دیکھئے ہم اخباری نمائندے ہیں۔ ہم سے منہ سنبھال کر بات کیجئے گا۔"
"اچھا " میں نے کہا۔
"آپ نے ووٹ جنرل ضیا الحق صاحب کے حق میں دیا ہے؟"
"جی ہاں"
"کیوں؟"
واہ ! کمال کررہے ہیں آپ !کیوں کا کیا مطلب؟ میں نے جنرل صاحب کے حق میں اس لئے ووٹ دیا ہے کہ میں اسلام اور جنرل صاحب کو لازم و ملزوم سمجھتا ہوں اور جو ایسا نہیں سمجھتا اُسے ملزم سمجھتا ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ جہاں اسلام وہاں ضیا الحق۔"
"یہ کیسے؟ "
"اس طرح کہ جنرل صاحب کو اسلام سے اتنی محبت ہے کہ چوبیس میں سے بیس گھنٹے وہ "اسلام" "اسلام" کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ "اسلام" "اسلام" کا ورد کرتے ہوئے وہ خود اسلام بن چکے ہیں یعنی "
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
"آپ کی باتیں خاصی دلچسپ ہیں۔ ذرا وضاحت سے فرمایئے کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟"
"میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ضیاالحق کی حمایت دراصل اسلام اور اسلامی نظام کی حمایت ہے۔ آپ ذرا ریفرنڈم میں پوچھے گئے سوال پر غور فرمائیں۔ یہ سوال اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ لوگوں سے پوچھا گیا ہے کہ آپ اسلامی نظام چاہتے ہیں ۔ اگر اس کا جواب "ہاں " میں ہے تو اس کا مطلب لامحالہ یہی نکلے گا کہ آپ جنرل صاحب کو مزید پانچ سال کے لئے صدر دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ صرف وہی اسلام نافذ کرسکتے ہیں۔ یہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ چونکہ ہم سب اسلامی نظام چاہتے ہیں، لہٰذا جنرل صاحب کے پانچ سال پکے۔ کون شقی القلب ہے جو یہ کہہ کر کفر کا مرتکب ہوگا کہ مجھے اسلامی نظام نہیں چاہیے۔"
"اگر یہ بات ہے تو لوگ ووٹ ڈالنے کیوں نہیں آئے؟"
"بڑا اچھا سوال کیا آپ نے۔ پریس کانفرنسوں میں ایسے سوال کم ہی پوچھے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔"
"یہ پریس کانفرنس نہیں ہے۔ ہم ویسے ہی آپ سے بات کررہے ہیں۔" ایک نمائندے نے کہا جو مجھ سے خاصا ناراض لگتا تھا۔
"اگر یہ پریس کانفرنس نہیں ہے تو میری بلا سے۔ بہرحال آپ اپنے سوال کا جواب سن لیجئے۔ کُچھ لوگ ووٹ ڈالنے اس لئے نہیں آئے کہ وہ اسلام دشمن قوتوں کے بہکاوے میں آگئے ہیں اور اس میں آپ جیسے اخبار نویسوں کا ہاتھ بھی ہے، لیکن کل آپ ہی کے اخباروں میں لکھا ہوگا کہ اسی سے نوے فیصد عوام نے ووٹ ڈالا" میں نے غصے میں کہا۔
"جنرل صاحب کو اسلام کی نہیں اپنے اقتدار کی فکر ہے۔" اخباری نمائندے نے کہا:
"پاکستان میں رہ کر جنرل صاحب کی مخالفت کرتا ہے۔ دریا میں رہنا مگرمچھ سے بیر۔" میں نے کہا:
آپ جنرل صاحب کو مگر مچھ کہہ رہے ہیں؟ اُس نے پوچھا
"تُم اخبار نویس باتوں کا اُلٹا مطلب خوب نکال لیتے ہو"
یہ سُن کر اُس نے آستینیں چڑھائیں اور میری طرف بڑھا۔ممکن تھا کہ دو سو گز کا فاصلہ سمٹ کر د و فٹ رہ جاتا، لیکن ایک پولیس والے نے بیچ بچاؤ کروا دیا، تاہم ایک اخباری فوٹوگرافر نے ایک شرارت کرہی دی ۔ اس نے چپکے سے ہمارا فوٹو اتار لیا۔ جسے اگلے دن اس عبارت کیساتھ اخبار میں چھاپ دیا:
"ماڈل ٹاؤن کے ایک پولنگ سٹیشن پر آنے والا اکلوتا ووٹر۔"

مزید :

کالم -