ختم نبوت اور تحریک لبیک یا رسول اللہ کا دھرنا

کئی دِنوں سے مولانا خادم حسین رضوی لاہوری، مولانا پیر محمد افضل قادری گجراتی کی زیر قیادت فیض آباد راولپنڈی میں تحریک لبیک یا رسول اللہ کا دھرنا جاری ہے۔ ان کے مطالبات واضح ہیں کہ انتخابی اصطلاحات کے بل میں حکومتی جماعت نے جس طرح دھوکہ دہی سے حلف نامہ کی جگہ اقرار نامہ کر کے قادیانیوں کو مسلمانوں میں ووٹ درج کرانے کی راہ ہموار کی۔ آئندہ کے لئے اس کا تدارک کیا جائے۔
اس کے لئے سب سے آسان اور سمجھ آنے والا راستہ یہ تھا کہ اس ترمیم کو لانے کی تمام ترذمہ داری وفاقی وزارتِ قانون کی تھی۔ ترمیمی بل کا انہوں نے ڈرافٹ تیار کیا۔ جو گھپلا ہوا، کھرا ان کے ہاں جاتا ہے۔وہ کھرا باہر نکالیں۔راستہ دیں۔
اگر وہ اپنے گھرسے کھرا باہر نہیں نکال پا رہے تو وہ ذمہ دار ہیں۔ اس کے لئے صرف تحریک لبیک یا رسول اللہ کی قیادت نہیں، بلکہ وزیراعلیٰ شہباز شریف صاحب تک مطالبہ کر چکے ہیں کہ ذمہ دار کا تعین کر کے اسے وزارت سے نکالا جائے۔
اس کے لئے کمیٹی بنی، لیکن نہ اس کا نتیجہ سامنے آیا نہ ملزم کو سزا ملی۔
یہ بات اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ وفاقی وزیر قانون نے جس این جی او کے کہنے پر بیرونی آقاؤں کی آشیرباد سے کھیل کھلا وہ بلاوجہ نہیں۔ اس کے پس منظر میں خوفناک ارادوں اور سازشوں کے ساتھ اسلام دشمن قوتیں گھات لگائے بیٹھی تھیں۔ اگر ان کی مراد برآتی تو اس کے جو خوفناک اور تباہ کن اثرات ہوتے،کاش کہ حکمران اس کا شعوری طور پر ادراک رکھتے تو ذمہ داروں کو سزا دینے میں تاخیر نہ کرتے۔
دیکھئے!یہ ترمیم کا کیس اتنا سادہ نہیں جتنا اسے سمجھا جا رہا ہے۔2002ء میں پرویزی حکومت کی آمرانہ سوچ اور ملعونانہ فکر نے انتخابی اصطلاحات کی دفعہ نمبر7 کی شق ’’بی‘‘ اور ’’سی‘‘ کو حذف کرنا چاہا۔ جمعیۃ علماء اسلام نے اس کے سامنے پوری قوم کو کھڑا کر کے بند باندھ دیا۔
مولانا فضل الرحمن نے اے پی سی کا اجلاس طلب کیا۔ پوری قومی قیادت اور چاروں مکاتب فکر کے نمائندگان نے وارننگ دی کہ ایک ہفتہ میں حکومت دوبارہ مسلم،غیر مسلم کی ووٹر لسٹیں علیحدہ علیحدہ بنانے کا اعلان کرے۔
حلف نامہ بحال کیا جائے،ورنہ ہم تحریک چلائیں گے۔ دوبارہ یہ دفعات شامل کر دی گئیں،لیکن 2008ء اور 2013ء کے الیکشن سے پہلے دفعہ نمبر7 کی دونوں شقوں کو اڑا دیا گیا۔ اب موجودہ ترمیم کے ذریعہ ان کے نشان کو بھی ان قوانین کی منسوخی کے ذریعہ مٹایا جارہا تھا۔ حکومت نے ترمیم واپس لی۔ دفعہ نمبر7 کی شقوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا۔
جناب راجہ ظفرالحق صاحب نے مژدہ سنایا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ان کی بحالی کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ جمعیۃ علماء اسلام نے اس کے لئے سینٹ میں ترمیم جمع کرائی ہوئی ہے۔
پارلیمنٹ میں شامل تمام جماعتوں کی قیادت کا متفقہ وعدہ ہے کہ ان کو بحال کیا جائے گا، مگر تاحال نہ تو ان کو بحال کیا گیا قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ختم ہوگیا کہ وہ ترمیم بھی زیربحث لاکر منظور نہ ہوپائی۔
اس سازش کے مجرم وفاقی وزیر قانون کو بھی نہ نکالا گیا۔ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ بھی منظر پر نہ لائی گئی تو دینی قوتوں کے سامنے سوائے اس کے اور کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا کہ وہ احتجاج کریں۔ پورے مُلک میں تمام جماعتیں اس پر صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں۔
خطبات جمعہ، جلسہ ہائے عام، کانفرنسوں میں ہر منبرومحراب سے ترانے گونج رہے ہیں۔ اخبارات میں مطالبات کئے جا رہے ہیں، لیکن قوت مقتدرہ جان بوجھ کر اسے معرض التواء میں ڈال کر عمداً تاخیری حربوں سے اسے ٹھنڈا کرنے کے درپے ہے۔
غالباً اس پُر امن جدوجہد کو نظرانداز کرنے کے خطرناک نتائج کا حکومت ادراک نہیں کر رہی۔ یقین فرمائیے کہ جس طرح ختم نبوت کے مسئلے کو سیاسی اغراض کے لئے یا اپنے ذاتی قد کاٹھ کی بھڑوتی کے لئے یا دنیوی مفاد کے طور پر استعمال کرنا کفر ہے۔
اس طرح اس مسئلے کے مقتضیات پر عمل نہ کرنا بھی گھناؤنا ناقابلِ معافی جرم ہے، جس کا حکومت کو فوری ادراک کرنا چاہئے۔ تحریک لبیک یا رسول اللہ کی حکمت عملی سے اختلاف کی گنجائش ہے کہ انہوں نے تمام مکاتب فکر کو اعتماد میں نہیں لیا۔
خود اپنے مکتب فکر کو اپنے ساتھ نہیں لیا۔ اکیلے پرواز بھری ہے، لیکن مسئلہ کی نزاکت اور ان کی قیادت کے حوصلہ سے اختلاف کرنا ناممکن ہے کہ وہ اس آڑے وقت ناموافق موسم میں کھلے آسمان تلے ختم نبوت زندہ باد کی صداؤں کو بلند کر رہے ہیں ان کی فلک شگاف صدا بے اثر نہیں جائے گی۔
لگتا ہے آنے والے وقت میں راولپنڈی کی تاجر برادری ہڑتال کرے گی۔ ان سے دست تعاون بڑھائے گی۔ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گی۔ پھر پورا مُلک ان کے ساتھ ہو گا۔ تمام مسالک ان کے یمین ویسار ہوں گے۔ حکومت ان بے نواؤں کا امتحان نہ لے:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
اب بھی حکومت کا فرض ہے کہ وہ دفعہ نمبر7 کی شقوں کو بحال کرے۔ عملی اقدام سے اپنی پوزیشن واضح کرے اور مجرموں کو نمونہ خیز،عبرت آموز سزا دے۔ ورنہ پوری قوم احتجاج کرنے والوں کے ساتھ کھڑی ہو گی۔