پرائیویٹ سکولوں کے معاملے میں سندھ حکومت کی بے بسی 

پرائیویٹ سکولوں کے معاملے میں سندھ حکومت کی بے بسی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے کہا ہے کہ قوانین پر عمل درآمد نہ کرنے والے نجی سکولوں کی رجسٹریشن ختم کردیں گے نجی سکولوں کا معاملہ کمرشل بنیادوں پر چل رہا ہے بچوں کے مستقبل پر سیاست نہیں کرسکتے نجی سکولوں کی کنٹرولنگ اتھارٹی اِن سکولوں کوقابو نہیں کرسکی صوبے میں 12670نجی سکول رجسٹرڈ ہیں لیکن چھ،سات ہزار سکول ایسے بھی ہیں جورجسٹرڈ نہیں ہیں فیسوں کے معاملے پر جب محکمہ تعلیم نے کچھ نہیں کیا تو والدین عدالت گئے سندھ اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہم نے عدالتی حکم پر سکولوں کو سات سے زائد خط لکھے کہ زائد فیسیں واپس کریں آج تک سکولوں نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا۔
سندھ کے وزیر تعلیم نے نجی سکولوں کو زیادہ وصول کی گئی فیسیں واپس کرنے کے عدالتی حکم پر عمل درآمد میں ناکامی کا اعتراف صوبائی اسمبلی کے ایوان میں کھل کر کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس معاملے میں صوبائی حکومت کتنی بے بس ہے جو اعلیٰ عدالت کے حکم پر عملدرآمد بھی نہیں کراسکی اور سکولوں کی انتظامیہ کو بار با خط لکھنے پر اکتفا کرتی رہی اور اب دھمکی دے رہی ہے کہ جو سکول قوانین پر عملدرآمد نہیں کریں گے اُن کی رجسٹریشن منسوخ کردی جائیگی، یہ صورتِ حال تو صرف پرائیویٹ سکولوں سے متعلق ہے اسی سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے معاملات میں احکامات پر عمل درآمد کرانے میں حکومت کس حد تک بے بس ہوگی اب اگر صوبائی حکومت نے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو دھمکی دے ہی دی ہے تو بہتر ہے اس پر عمل درآمد بھی کرایا جائے تاکہ کم از کم یہ تو احساس ہو کہ حکومت اپنے احکامات پر عملدرآمد کرانے کی پوزیشن میں ہے۔
جہاں تک پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی زیادہ فیسوں کا تعلق ہے یہ کسی ایک صوبے کا مسئلہ نہیں ہے پورے ملک میں یہی صورت حال ہے بس اتنا ہے کہ جہاں سکول کم ہیں وہاں معاملے کی سنگینی بھی زیادہ نہیں اور جہاں سکول زیادہ ہیں وہاں معاملہ بہت ہی گھمبیر ہے، حکومت بلکہ پورے ملک کی صوبائی حکومتوں کو سوچنا چاہئے کہ تعلیم اس حد تک کمرشل کیوں ہوگئی ہے اور اگر ہوسکے تو اس کے ازالے کی کوئی تدبیر بھی کرنی چاہئے بظاہر اب تک ایسا نہیں کیا گیاوفاقی حکومت بار بار اعلان کررہی ہے کہ ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائیگا یہ اعلان اگرچہ خوش آئند ہے تاہم یہ معلوم نہیں کہ اس سلسلے میں حکومت نے صوبوں کے ساتھ مل کر کیا حکمتِ عملی اپنائی ہے کیونکہ اس وقت تو رنگ رنگ کے سکولوں نے بہت ہی متنوع قسم کے نصاب رائج کررکھے ہیں اور اس ضمن میں اتنی لاپروائی ہے کہ بعض نصابی کتابوں میں ملک کے بنیادی نظریات کے خلاف مضامین موجودہوتے ہیں، معلومات بھی غلط ہوتی ہیں اور کبھی کبھار جب ایسی غلطیوں کی نشاندہی ہوتی ہے چند دن کے لئے شور اُٹھتا ہے اور پھر معاملہ دب جاتا ہے یا دبا دیا جاتا ہے کیونکہ جو تعلیمی ادارے اس انتہائی منافع بخش کاروبار سے کروڑوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں وہ اس قابل تو ضرور ہیں کہ تعلیم کے حکام پر اثر انداز ہوسکیں اور اگر اُن کی بات نہ مانی جائے تو وہ ’’اوپر‘‘ تک رسائی رکھتے ہیں۔
یہ تصور کرنامشکل نہیں کہ اگر ایک صوبے کی حکومت زائد وصول کی گئی فیسوں کی واپسی کے عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں کراسکتی تو یکساں نظام رائج کرنا کتنا مشکل کام ہے، پرائیویٹ سکولوں نے تو اپنے اپنے ’’سکول سسٹم‘‘ رائج کر رکھے ہیں بعض نامور سکولوں میں تو ماہانہ فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ جس خاندان کے دو بچے بھی زیر تعلیم ہیں وہ صرف فیسوں کی مد میں کم و بیش پچاس ساٹھ ہزار بلکہ بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ خرچ کرتا ہے، کئی تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں جو فیس ڈالروں میں وصول کرتے ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ ایسے سکولوں میں داخلے کے لئے مقابلہ بھی سخت ہوتا ہے، یعنی داخلے کے خواہش مند زیادہ ہوتے ہیں اور نشستیں کم دستیاب ہوتی ہیں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض ایسے سرکاری افسروں کے بچے بھی ان سکولوں میں زیر تعلیم ہیں جن کی اتنی معلوم آمدنی نہیں جتنی فیسیں وہ ادا کرتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بچوں کی فیسیں اور دوسرے اخراجات پورے کرنے کے لئے سرکاری افسروں کو اپنے آمدنی کے وسائل بڑھانا پڑتے ہیں اب جن لوگوں کی آمدنی لگی بندھی ہے اور تنخواہ مقرر ہے وہ اس میں اضافہ کیسے کرسکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ وہ زیادہ آمدنی کے لئے ناجائز ذرائع تلاش کرتے ہیں اور پھر کرپشن پھیلتی ہے، اگر دیکھا جائے تو اُن اداروں کے افسر بھی اس میں ملوث نکلیں گے جو کرپشن روکنے پر مامور ہیں۔
سپریم کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران میں ریمارکس دئے ہیں کہ نجی تعلیمی اداروں نے کتنی فیسیں بڑھانی ہیں اس کا فیصلہ اب عدالتی کمیٹی کرے گی فاضل چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دئے کہ ہم نے جو کمیٹی بنائی تھی اس نے کوئی نتیجہ نہیں دیا اب خود سربراہی کروں گا، والدین رو رہے ہیں فاضل چیف جسٹس کے اِن ریمارکس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ معاملہ کس حد تک سنگین ہے اور اصلاح احوال کی کوششیں ناکام کیوں ہو رہی ہیں فاضل چیف جسٹس نے اپنی بنائی ہوئی کمیٹی کی ناکامی کا ذکر کیا ہے تو سندھ کے وزیر تعلیم اپنی جگہ اپنی ناکامی کا اعتراف کررہے ہیں اس لئے لگتا ہے کہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اتنی طاقت ور ہے کہ وہ نہ تو سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی کمیٹی کو کامیاب ہونے دیتی ہے اور نہ ہی ایک صوبے کی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی کنٹرولنگ اتھارٹی کی دال گلنے دیتی ہے، یہ تو صرف فیسوں کا پہلو ہے اِن سکولوں میں اور بھی بہت کچھ اصلاح طلب ہے اس کا حل تو یہ ہے کہ حکومت اتنے معیاری سکول قائم کرے کہ لوگ اِن پرائیویٹ سکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے پر مجبور نہ ہوں لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں توایک ہزار کے قریب پرائمری اور ہائی سکول بند کر دئے گئے ہیں ممکن ہے صوبائی حکومت انہیں بند کرنے میں حق بجانب ہو اور ان کے اخراجات زیادہ ہوں یا بچے کم ہوں اور سٹاف زیادہ لیکن دعویٰ تو یہ کیا گیا تھا کہ خیبرپختونخوا میں لوگ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں سے اُٹھا کرسرکاری سکولوں میں بھیج رہے ہیں ایسے دعوے کا کیا ہوا؟ تعلیم میں اصلاحات کے لئے جس بڑے آپریشن کی ضرورت ہے کیا حکومت اس کے لئے تیار ہے؟

مزید :

رائے -اداریہ -