اپنے ٹیلنٹ کو بیرون ملک نہ جانے دیں
برین ڈرین تمام ترقی پذیر ملکوں کا مسئلہ ہے لیکن پاکستان کے لئے تو انتہائی حساس اور غیر معمولی ہے ۔اپنے ملک میں اپنی ذہانتوں سے بہتری لانے کی بجائے وہ دوسرے ملکوں کو اپنی صلاحیتوں سے دوبالا کردیتے ہیں جبکہ پاکستان ان سے محروم رہ جاتا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق ستائیس لاکھ ذہین پاکستانی پچھلے پانچ سال میں ملک چھوڑ کر سنہری مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک جاچکے ہیں۔یہ خطرے کی علامت ہے جسے محسوس نہیں کیا جارہا ۔ بریں ڈرین یعنی اعلا ذہنوں کا ملک سے باہر چلے جانے کا عمل کیوں رونما ہوتا ہے ؟ اسکو وسیع تر معاشی اورسماجی ماحول میں دیکھنا ہوگا ۔
ہمارے ملک میں روز بروز مغربی تعلیمی نظام بڑھتا جا رہا ہے جسکے باعث ہمارے اپنے تعلیمی ادارے زوال کا شکار ہیں ۔ایک طرف آکسفورڈ کیمبرج ، اے لیول اور اولیول جیسے نظام کو فروغ دیا گیا ہے تو دوسری جانب معیار تعلیم نہایت گراوٹ کا شکار ہے پہلے اسکولوں کی حالت خستہ سے خستہ تر ہوتی جا رہی ہے سرکاری تعلیمی اداروں کی پروان کیلیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہو رہا ۔بعض سکولوں میں صبح کی اسمبلی جس میں دن کی ابتدا ہی اللہ تعالٰی کے نام سے یعنی دعا،قومی ترانہ اور اساتذہ کے چند اصلاحی بیان جوکہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ہوا کرتے تھے ختم کر دیے گے ہیں۔ اسمبلی کا رجحان ہی ختم ہوتا جا رہا ہے سکول جاتے ہی بچے کلاس رومز میں چلے جاتے ہیں اور پڑھائی اور دن کا آغاز اللہ اور رسول صلّی اللہ علیہ وآلہ وصلم کے بغیر ہی کسی میتھ فزکس یا کیمسٹری کی کتابوں سے کروایا جاتا ہے ۔ اسکے بعد ہم بطور معاشرہ نئی نسل سے ادب احترام اور تہذیب مشرقی کے متمنی ہوتے ہیں۔
گو کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود اور اْسکی پہلی تربیت گاہ والدین کا فرض منصبی ہی ہے لیکن تمام والدین اتنے تعلیم یافتہ نہیں ہوتے کہ دورحاضر کے مطابق اتنی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں ۔سکولوں میں بھیجنے کامقصد یہی ہوتا ہے کہ اگر والدین سے کہیں تربیت میں اْنکے والدین کی کم علمی کے باعث کوئی کسی قسم کی کمی کجی رہ گئی ہو تو وہ تعلیمی درسگاہ میں اساتذہ جوکے بچوں کے روحانی والدین کا درجہ رکھتے ہیں اْن سے پوری ہوسکے ،لیکن ہمارا المیہ رہا ہے کہ اس جانب غفلت برتی جا رہی ہے بلکہ نجی تعلیمی و غیر ملکی تعلیمی اداروں کو سراہا جا رہا ہے جو کہ نہایت قابل افسوس ہے ۔
غور طلب پہلو یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک انڈیا ہی میں غیر ملکی تعلیمی نظام پر پابندیاں عائد ہیں اور ایک ہم ہیں کہ دور کے ڈھول سہانے کے مطابق اپنے نوجوان طبقے کو اغیار کے حوالے کرنے کا سامان کررہے ہیں کیونکہ مغربی طرز پر تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان نہ صرف ملک کے خلاف ہوجاتے ہیں بلکہ ان میں حب الوطنی کا جذبہ مانند پڑنے لگتا ہے ۔یہ ہر لمحہ مغرب ہی کیلیے پر تولتے رہتے ہیں اور یوں ہمارا پڑھا لکھا طبقہ ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے ۔ پیچھے وہی غیر تعلیم یافتہ یا پیلے سکولوں والا کم تعلیم یافتہ طبقہ رہ جاتا ہے جو ملکی ترقی میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرسکتا ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے ملک میں ہی مساواتی دینی و دنیاوی و اعلیٰ تعلیم کا انتظام عمل میں لایا جائے تاکہ ہر طبقہ معیاری و شعوری تعلیم سے بہرہ ور ہو سکے اور ملکی ترقی میں اپنا بہترین کردار ادا کرسکے۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔