اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 81
میں پتھروں اور جھاڑیوں کی اوٹ میں کھسکتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ فدائین یہاں چھپ کر ضرور پہرہ دے رہے ہوں گے۔ میں ان ہی میں سے کسی ایک کے کھوج میں تھا۔ ایک جگہ مجھے جھاڑی میں کچھ حرکت ہوتی دکھائی دی۔ میں جان بوجھ کر اٹھ کھڑا ہوا تاکہ اگر وہاں کوئی پہرے دار ہے تو وہ مجھ پر وار کرے اور ایسا ہی ہوا۔ جوں ہی میں اٹھا سن کر آواز کے ساتھ ایک تیر اندھیرے کے سینے کو چاک کرتا ہوا میری طرف آیا اور میری گردن میں گھس گیا۔ میں نے اپنے آپ کو گرا دیا اور اندھیرے میں اس جھاڑی کو غور سے دیکھنے لگا جدھر سے یہ تیر آیا تھا اس جھاڑی میں سے ایک سیاہ پوش فدائی شیر کی طرح نکل کر میری طرف جھپٹا۔ میں زمین پر چپ چاپ لیٹا رہا۔ جوں ہی وہ میرے پاس آکر مجھ پر یہ دیکھنے کے لئے جھکا کہ میں زندہ ہوں یا مر چکا ہوں تو میں نے دونوں ہاتھوں سے اس کی گردن دبوچ کر اسے وہاں گرالیا۔ فدائی پہرے دار بھونچکا رہ گیا۔ اس پر دہشت بھی طاری ہوگئی تھی۔ کیونکہ وہ صاف دیکھ رہا تھا کہ اس کی کمان سے نکلا ہوا تیر ابھی تک میری گردن کے آرپار ہے اور میں نہ صرف ابھی زندہ ہوں بلکہ پوری طاقت سے اس کی گردن دبا رہا ہوں۔
میری گرفت بے حد مضبوط تھی اورفدائی کا دم اکھڑنے لگا تھا۔ میں اس کے سینے پر سوار ہوگیا ۔ میں اس کی گردن کو اسی طرح دبائے ہوئے تھا تاکہ وہ آواز نکال کر اپنے کسی ساتھی کو نہ بلا سکے۔ میں نے اس سے جلدی سے کہا۔
’’ تم دیکھ رہے ہو کہ میں تیر کھا کر بھی زندہ ہوں۔ میری گردن سے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہا۔ تم یہ بھی محسوس کر رہے ہو گے کہ میرے اندر ہاتھی سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ میں تمہیں اسی جگہ ختم کر سکتا ہوں۔ مجھے بتاؤ کہ تم جو نئے فدائین بھرتی کرتے ہو وہ قلعے میں کس جگہ پہنچائے جاتے ہیں؟‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 80پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس غریب کا دم نکلا جا رہا تھا۔ یہ شخص اپنے آقا کے حکم پر تو قلعے کی سب سے اونچی چوٹی پر سے کود سکتا تھا مگر اس ناگہانی آفت سے وہ بھر گھبرا گیا تھا اور میری مافوق الفطرت طاقت نے اس پر لرزہ طاری کر دیا تھا۔ اس نے لرزتی خرخراتی آواز میں کہا۔ انہیں قلعے کے تہہ خانوں میں سے لے جایا جاتا ہے مگر اس وقت قلعے میں نئے اغواء شدہ فدائین نہیں ہیں۔ میں نے اس کی گردن کو کچھ اور زور سے دبایا اور پوچھا کہ وہ کب لائے جاتے ہیں؟ اس کی آنکھیں باہر کو ابل آئی تھیں اور جسم میں بالکل جان نہیں رہی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ کچھ نوجوانوں کو اغوا کر کے آج اندھیرے میں لایا جارہا ہے۔ یہ میرے لئے ایک خبر تھی ۔ جو کام مجھے قلعے کے اندر جا کر کرنا تھا اس کا پہلا مرحلہ قلعے کے باہر ہی طے ہوگیا تھا۔
جب میں نے قلعہ الموت کے بارے میں اس سے کچھ معلومات حاصل کرنا چاہیں تو اس نے آنکھیں بند کر کے سانس روک لیا۔ میں اس کا گلا بھی نہیں چھوڑ سکتا تھا کہ کہیں چیخ مار کر اپنے ساتھیوں کو خبردار نہ کر دے جس سے میرا سارا منصوبہ خاک میں مل سکتا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ خود ارادی حبس دم سے مرایا میرے گلا دبانے سے اس کی موت واقع ہوئی۔ بہر حال جب میں نے اس کی گردن سے ہاتھ اٹھایا تو وہ میرچکا تھا۔ اس کا دل بند ہوگیا تھا اور سانس کی آمد روفت ختم ہوچکی تھی۔ میں اس کی لاش کو گھسیٹ کر جھاڑیوں کے پیچھے لے گیا اور خود کچھ اور پیچھے جا کر قلعے کو جانے والے پتھریلے راستے کے کنارے ایک ٹیکرے کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ اب مجھے ان فدائین کا انتظار تھا جو کچھ نئے لوگوں کو اغواء کر کے لا رہے تھے۔ ابھی پوپھٹنے میں کچھ دیر تھی۔ میں جگہ پر خاموشی سے دبکا بیٹھا رہا۔ خشک سوکھی جھاڑیوں میں سے سرنکال کر میری نگاہیں اس راستے پر جمی ہوئی تھیں جو مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر سے گزرتا ہوا اوپر قلعے کے بڑے دروازے کو جانا تھا۔
منہ اندھیرے کی دھندلی فضاؤں میں کچھ دیر بعد مجھے سائے آگے بڑھتے نظر آئے۔ د س بارہ فدائی گھوڑوں پر سوار انہیں قدم بہ قدم چلاتے آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے پیچھے پچاس کے قریب آدمی چلے آرہے تھے۔ عقب میں تھوڑا سا فاصلہ رکھ کر فدائیوں کا ایک اور دستہ ان کی نگرانی کرتا چلا آرہا تھا۔ یہ پچاس کے قریب آدمی وہ لوگ تھے جنہیں فدائین کی فوج میں بھرتی کرنے کے لئے لایا جا رہا تھا۔ حسن بن صباح کو قلعہ الموت میں حکومت کرتے ایک مدت گزر گئی تھی۔ اس دوران میں جو فدائی اس پر فدا ہوکر یا طبعی موت مر جاتے ان کی جگہ دوسرے لوگوں کو اغوا کر کے یا ان کو ورغلا کر قلعے میں بھرتی کر دیا جاتا تھا۔ تلعہ الموت تک اکثریت کی تعداد بادل نخواستہ آتی مگر نقلی جنت کی جھلک دیکھنے کے بعد وہ وہیں کے ہو رہتے اور مرنے کی خواہش کرتے تاکہ موت کے بعد اس نقلی جنت میں ہمیشہ کی زندگی بسر کر سکیں۔
میں چوکس ہوگیا۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ نئے بھرتی کئے جانے والے آدمیوں اور عقبی نگران دستے میں کچھ فاصلہ میں ابھی ہلکا ہلکا اندھیرا بھی تھا۔ میں کچھی سڑک کے کنارے ایک جھاڑی کے پیچھے گھات لگا کر بیٹھ گیا۔ نئے فدائین کی ٹولی میرے قریب سے گزر رہی تھی۔ جب آخری آدمی میرے نزدیک سے گزرنے لگا تو چیتے کی طرح اچھلا اور اسے گردن سے دبوچ کر نیچے جھاڑیوں میں گرا لیا۔ نگران دستہ فاصلے پر ادھر ادھر دیکھ بھال کرتا چلا آرہا تھا۔ میں نے اس دوران میں اس نوجوان کو نیم بے ہوش کر کے اس کی پگڑی اپنے سر پر رکھی اور بھاگ کر آگے جانے والے نو بھرتی شدہ آدمیوں میں شامل ہوگیا اور ان ہی کی طرح سر جھکا کر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ کسی نے میری طرف مڑ کر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ معلوم ہوا کہ وہ سب ایک دوسرے کے ناواقف تھے اور اپنے اپنے خیالوں میں گم چلے جا رہے تھے۔
قلعے کے دروازے کے پاس پہنچ کر میں نے دیکھا کہ دروازے کے آگے ایک گہرے پہاڑی کھڈ تھی۔ فدائی دستے کے لئے کھڈ کے اوپر ایک تختہ گرا دیا گیا۔ جس پر سے گزر کر ہم سب لوگ قلعے میں داخل ہوگئے۔ آج اسے قلعے کے کھنڈر میں مشکل سے ملیں گے لیکن اس زمانے میں قلعے کی ہیبت ہر کسی کے دل پر چھائی ہوئی تھی۔ قلعے کے اندر کی فضا بڑی پر اسرار تھی۔ سیاہ لباس میں ملبوس فدائی تلواریں لگائے جگہ جگہ پتھر کے مجسموں کی طرح پہرہ دے رہے تھے۔ نیم اندھیرے میں ان کی آنکھیں چیتے کی آنکھوں کی طرح چمک رہی تھیں۔ ہمیں ایک تنگ و باریک راستے سے گزار کر ایک زمین دوز تہہ خانے میں لے جا کر بند کر دیا گیا۔ کچھ وقت گزرا ہوگا کہ ہمیں کھانے کو شہد اور ساتھ پینے کو مشروب دیا گیا۔ جو شاید نشہ آور تھا۔ اسے پینے کے تھوڑی دیر بعد سب کے سب نشے کی ایک کیفیت خاص میں غرق ہوگئے۔ مجھ پر نشے نے کوئی اثر نہیں کیا تھا۔ مگر میں بھی اپنے ساتھیوں کی حالت بے خودی میں شامل ہو کر ان ہی جیسی اداکاری کرنے لگا تھا۔ اب ایک ایک کر کے سب بے ہوش ہونے لگے۔ میں نے بھی اپنے آپ کو بے ہوش ظاہر کرتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔ مگر میں گوشہ چشم سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ جب سارے آدمی بے سدھ ہو چکے تو تہہ خانے میں ساٹھ کے قریب فدائین داخل ہوئے۔ انہوں نے مجھ سمیت سب بے ہوش آدمیوں کا اٹھا کر کاندھوں پر ڈالا اور کئی تنگ و تاریک دشوار گزار راستوں میں سے گزر کر ایک عجیب و غریب کشادہ اور پرفضا جگہ پرآکر تمام بے ہوش انسانوں کو تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ڈال دیا اور چلے گئے۔ میں انہیں دیکھ رہا تھا۔ مگر میں نے اپنی آنکھیں پوری نہیں کھولی تھیں۔ پھر بھی میں نے دیکھا کہ میں ایک ایسی جگہ پر آگیا ہوں جو سرسبز و شاداب چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں گھری ہوئی تھی۔ یہی ارضی جنت تھی۔ آبشاریں چاندی کی طرح چمکتی ہوئی نہروں میں گر رہی تھیں کہ جن کے کنارے سنگ سبز کے تھے اور بیچ میں جگہ جگہ نقرئی اور طلائی فوارے اچھل رہے تھے۔ درختوں پر رنگ برنگے پھولوں کی بیلیں چڑھی ہوئی تھیں جن میں طیور خوش الحانی کر رہے تھے۔
میں نے آنکھیں کھول دیں۔ میرے ساتھی ابھی تک عالم سکر میں تھے اور آہستہ آہستہ انہیں ہوش آرہا تھا۔ جابہ جا سونے چاندی کے تخت بچھے تھے جن پر ریشمی چادروں کے فرش تھے۔ سبزے کے فرش پر جگہ جگہ نیلم ، فیروزے اور زمرد کا چھڑکاؤ کیا ہوا تھا جو طلوع ہوتے سورج کی سنہری شعاعوں میں رنگین کہکشاں کی طرح دمک رہا تھا۔ یہ شیخ الجبل حسن بن صباح کی جنت تھی جس میں ایک رات بسر کرنے کے بعد انسان شیخ کا فدائی بن جاتا تھا اور اس پر فدا ہونے کے بعد ابد تک اس جنت ارضی میں زندگی بسر کرنے کے خواب دیکھتا تھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)