انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 18
ایک وقت تھا کہ جب پاکستانی ویزہ ، دنیا کے بیشتر ممالک کے ایئرپورٹس پر آسانی کے ساتھ دستیاب تھا۔ اسوقت سبز پاسپورٹ رکھنے والے ہر شہری کو محض یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہوتی تھی کہ وہ اپنے مالی وسائل کی بدولت اس ملک کا سفر کرنے کا اہل ہے، جس کے بعد اسے آسانی کے ساتھ ویزہ مل جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ صورتحال تبدیل ہوتی گئی۔ پاکستانیوں کے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، جعلی پاسپورٹس پر سفر کرنے اور انسانی سمگلنگ میں ملوث ایجنٹس کے انتہائی منظم نیٹ ورکس میں تبدیل ہو جانے کے بعد اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے، کہ پاکستانیوں کے لئے دیگر ممالک کے جینوئن ویزہ کا حصول بھی بہت ہی مشکل ہوچکا ہے۔
اینٹوں کے بھٹہ پر نسل در نسل کام کرنے والے بچے،عورتیں اور مرد
اقوام متحدہ کی نگرانی میں مرتب کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جبری مشقت کے ذریعے کم و بیش 31 بلین ڈالر ریونیو سالانہ حاصل کیا جاتا ہے، اور پاکستان میں جبری مشقت کی سب زیاد ہ مقبول عام شکل بھٹہ مزدور ہیں جو نسل در نسل بھٹوں میں مزدور ی کرتے ہیں، مگر پھربھی اپنے یا اپنے آباء کے ذمہ واجب الادا قرضہ دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جبری مشقت کی یہ بدترین شکل ہے لیکن افسوسناک ترین امر یہ ہے کہ تاحال غلامی کی اس کیفیت کو بین الاقوامی سطح پر وہ اہمیت و توجہ نہیں دی گئی جس کی یہ مستحق ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ پورے ملک میں اینٹیں تیار کرنے والے ایسے لاتعداد بھٹے موجود ہیں جہاں پورے پورے کے خاندان یرغمالیوں کے طور پر دن رات مزدوری کرتے ہیں۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 17پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پاکستان میں اس وقت ٹریڈ یونینز کے اندازوں کے مطابق پندرہ ہزار کے لگ بھگ اینٹیں تیار کرنے والے بھٹے موجود ہیں۔ ان میں سے اکثریت نان رجسٹرڈ بھٹوں کی ہے جبکہ مجموعی طور پر تیس لاکھ کے لگ بھگ مزدور ان بھٹوں میں کام کرتے ہیں تاہم ان میں سے دس فیصد سے بھی کم مزدور رجسٹرڈ ہیں۔فنی مہارت کے شعبے میں کارکردگی دکھانے کے سبب اصولاً ان کی تنخواہ پندرہ ہزار یا روزانہ کی اجرت ساڑھے چار سو روپے ہونی چاہئے تاہم یہ بدقسمت مزدور مہینے بھر کی کمائی کے نام پر بھی ساڑھے چار سو روپے سے کم حاصل کرپاتے ہیں ۔چونکہ ان کے مالکان میں اکثریت بااثرشخصیات مثلاً اعلیٰ عہدوں سے ریٹائر ہونے والے پولیس افسرز اور بیوروکریٹس اور ارکان اسمبلی کی ہے، جس کی وجہ سے ان بھٹوں پر مزدوری کرنے والوں کے استحصال کیخلاف کسی قسم کی کوئی ٹھوس کارروائی دیکھنے میں نہیں آتی۔
ان بھٹہ مالکان کا طریقہ واردات کچھ یوں ہے کہ یہ اپنے ہاں محنت مزدوری کی خاطر آنے والے افراد کو’’ آسان اقساط‘‘ پر قرضے کی سنہری پیشکش کرتے ہیں۔دراصل یہ قرضہ ایڈوانس تنخواہ ہوتی ہے۔ ایک وقت میں ایک بھٹے پر اگرچہ درجنوں مزدور اینٹوں کی تیاری میں مصروف ہوتے ہیں، لیکن ان خشک اینٹوں کو بھٹے پر جلانے کا کام ہرروز نہیں کیا جاتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بھٹے پر ایک وقت میں لاکھوں کے قریب اینٹیں پکائی جاتی ہیں، جب یہ اینٹیں پک کر تیار ہوں گی، اس کے بعد ہی مزدور کو اس کی تیار کردہ اینٹوں کے عوض تنخواہ مل سکے گی۔ یہی وجہ ان مزدوروں کو مالک سے ایڈوانس تنخواہ لینے پر مجبور کردیتی ہے ۔یہ ایڈوانس ، ڈوبتے کو تنکے کا سہار ا کے مصداق ان کی عارضی ضروریات تو پوری کرنے میں مدد دیتا ہے لیکن اس کے بعد ا ن کا پورا خاندان اور بعض اوقات تو آنے والی نسلیں بھی اس کی ادائیگی کے چکر میں بھٹہ مالکان کے پاس یرغمال بن جاتی ہیں۔ ان کوہر بار ملنے والی اجرت کا بیشتر حصہ پچھلے قرضوں کے مد میں کٹتا جاتا ہے اوریوں سود کی مانند یہ معاشی بوجھ کسی صورت بھی کم نہیں ہونے دیتا۔ ہر مقروض کے ذمہ واجب قرض ختم کیوں نہیں ہونے پاتا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مالک کے وفادار نوکر ہی رقم کی واپسی کا حساب کتاب بھی لکھتے ہیں اور یہ وفادار ملازم مالک کی اجازت کے بغیر حساب کھاتا کلیئر کرنے سے معذور ہوتے ہیں اور یوں قرضہ ساری زندگی واجب الادا ہی رہتاہے۔
واضح رہے کہ عدالت اس ایڈوانس سسٹم کو ختم کرنے کا فیصلہ سنا چکی ہے، تاکہ انسانی سمگلنگ کی اس بدترین قسم کا خاتمہ کیا جاسکے تاہم عملی طور پر عدالتی احکامات پرعملدرآمد نہیں ہو سکا، نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی کم و بیش چھ لاکھ مزدور بھٹہ کارخانوں پر یرغمالی کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔
اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والوں بچے، بوڑھے، عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مزدور اپنے ذمہ قرضہ جلد از جلد ادا کرنے کی خواہش میں اپنے پورے خاندان کو اپنے ہمراہ مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ پورا کا پورا خاندن ہی بھٹہ مالک کے پاس یرغمال بن کر رہ جاتا ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ یہاں کام کرنے والے بچوں میں اکثریت انتہائی کم سن ہوتی ہے لیکن یہاں ان پر ہونے والا ذہنی و جسمانی تشدد انہیں وقت سے بہت پہلے ہی بڑا بنا دیتا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے مطابق بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں میں سے پچاس فیصد بچوں کی عمر 14 برس سے بھی کم ہوتی ہے ۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پانچ سال کی عمر کے بچے بھی مٹی کھودنے اور گارے کی تیاری میں اپنے بڑوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ تاہم چائلڈ لیبر ایکٹ سمیت تمام حکومتی قوانین ان بھٹہ مالکان کی طاقت اور اختیارات کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔
آج سے دو برس قبل بھٹہ مزدوروں کی کم از کم اجرت442 روپے مقرر کی گئی تھی جس کے عوض انہیں ایک ہزار اینٹیں تیار کرنا تھیں، تاہم مزدور یہ مقررہ تنخواہ نہ پاسکے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ بجائے اس ضمن میں کوئی عملی قدم اٹھایا جاتا،الٹا حکومت نے ایک ہزار اینٹوں کی مزدوری بڑھا کر 518 روپے کردی۔ یوں وہ بھٹہ مالکان جو 442 روپے میں سے بھی حیلے بہانے سے آدھی یا تین چوتھائی تنخواہ رکھ لینے میں ماہر تھے، ان کے لئے مزدوروں کو ان کی حق حلال کی کمائی دینا اور بھی بوجھ لگنے لگا۔ اس صنعت سے وابستہ مزدوروں کی صحت اور تعلیم کی ذمہ داری اگرچہ ان کے مالکان پر عائد ہوتی ہے تاہم عملی طور پر انہیں تعلیم کے میدان سے کوسوں دور رکھا جاتا ہے کیونکہ صرف ناخواندگی اور عدم شعور ہی ان بے بس مزدوروں کو بھٹہ مالکان کے پاس یرغمال رہنے دے گا۔ ان مزدوروں کی شنوائی کیلئے معاوضہ کمیشن عدالتیں بھی موجود ہیں تاہم اکثریت ان عدالتوں کی موجودگی سے ہی سرے سے بے خبر ہے، دوسری جانب بھٹہ مالکان کی بے حسی کی وجہ سے ان مزدوروں کے سوشل سیکیورٹی کارڈز بھی نہیں بن پاتے ہیں جن کی تیاری بھی مالکان کی ذمہ داری ہے۔
بھٹہ مزدوروں کے ایشو کو منظر عام پر لانے کے حوالے سے جرمنی کیایک غیر سرکاری تنظیم نے ڈیڑھ دہائی قبل بھرپور کوششیں کی تھیں، سروائیول نامی اس این جی او نے فزیبلٹی تیار کرنے سے لے کر اس پروجیکٹ کے لئے فنڈنگ تک کا انتظام کرلیا تھا لیکن کئی سال تک محنت کے بعد ان بااثر بھٹہ مالکان کے آگے یہ جرمن این جی او بھی ہار گئی اور پروگرام وائنڈ اپ کردیا گیا۔ اس پروگرام کی آمد کی صورت میں اینٹوں کی تیاری کیلئے انسانی قوت سے چلنے والی ایسی مشینیں استعمال کی جاتیں جن کے ذریعے سے انسانی محنت کو پچاس فیصد تک کم اور کام کی رفتار کو بڑھا دیا جاتا، جس کے بعد امید تھی کہ مزدوروں کے استحصال میں کمی آجاتی اور بھٹہ مزدور کو یرغمال بنائے رکھنا کا سلسلہ بھی شائد ختم ہوجاتا تاہم حکومتی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ پروگرام ختم ہوگیا۔ پاکستان بھٹہ مزدور یونین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کے دوران انسانی اعضا ء فروخت کرنے والے افراد میں سے تقریباً پچھتر فیصدبھٹہ مزدور تھے۔ ان کے اس اقدام کی وجہ بھی بھٹہ مالک کا تشدد اور قرضے کی واپسی کیلئے دباؤ تھا جس کے بعد مجبوراً انہیں مالک کے مشورے پر ہی اپنے اعضا فروخت کرنا پڑ ے۔یہ بدقسمت اپنے اعضا فروخت کرکے بھی مالک کا قرضہ ادا نہیں کر پاتے بلکہ صرف قرضے کی واپسی کی عارضی مہلت میں تھوڑا اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ بھٹہ مالکان بسا اوقات پورے کے پورے خاندان کو دیگر بھٹوں پر بھی ملازم رکھوا دیتے ہیں۔ یوں انسانی تجارت کا یہ مکروہ فعل جاری رہتا ہے۔
جبری مشقت
جبری مشقت پر مجبور مزدوروں کا احوال بھی بھٹہ مالکان کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنے والے غریب محنت کشوں سے مختلف نہیں۔ جبری مشقت دراصل ایک وسیع شعبہ ہے اور بھٹہ مزدوری بھی جبری مشقت کی ہی ایک قسم ہے۔ بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے علاوہ، اس وقت پاکستان میں جن شعبوں میں زیادہ جبری مشقت کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں، ان میں قالین بانی کی صنعت، ہاتھ کی کھڈیاں اور زراعت کے شعبے شامل ہیں، جہاں محنت کش سالہاسال تک اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کرنے کے باوجود بھی خود کو مالکان کے چنگل سے آزاد نہیں کرواپاتے اوریوں سود ادا کرتے کرتے ان کی عمر بیت جاتی ہے۔ ان بے دام غلاموں کا سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ ان کے پورے پورے خاندان بیگار تو کرتے ہیں لیکن ان میں شامل عورتیں اور بچے کسی گنتی میں نہیں ہوتے۔ کسانوں کو ان کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں دیا جاتا، ان کی مزدوری کے معاوضے کو کو گزشتہ سود کے مد میں کاٹ لیا جاتا ہے۔ آنے والے دنو ں میں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے انہیں ایک بار پھر اپنے مالک سے رابطہ کرنا پڑتا ہے، اور یوں سود کی لعنت ان کی نسلوں کو بھی زمیندار کا مقروض بنا دیتی ہے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)