مولانا رومؒ نے اپنے شہر کو بچانے کے لئے جب ہلاکو خان کی فوج کے سامنے مصلٰی بچھا کر نماز نیت لی ،سپاہیوں نے تیر چلائے ،تلواریں سونت کر ان پر لپکے مگرپھر کیا ہوا؟ جانئے ایک ولی کی شان کہ اسکے دشمن کیسے زمین چاٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیں
اللہ کے ولی کو کبھی کوئی آفت پریشان نہیں کرتی تاوقت کہ اللہ کا حکم نہ ہو،تاریخ ایسے بے شمار واقعات کی شاہد ہے کہ اولیا اللہ کی جان لینے کے درپے دشمن خود مصیبتوں کا شکار ہوجاتے اور انکی عقلیں خبط ہوجایا کرتی تھیں۔جب ہلاکو خان قہر بن کر بغداد اور تبریز تک پہنچا تو اسکے ایک سپہ سالار نے مولانا روم ؒ کے شہر قونیہ پر بھی یلغار کرنا چاہی مگر مولانا روم کی جلالت نے اسکے سپاہیوں کو بے خود کردیاتھا ۔یہ ولی اللہ کی شان ہے کہ زہر تلوار آگ اور تیر بھی اس پر اثر نہیں کرسکتی ۔
تیرہویں صدی میں ہلاکو خاں کے سپہ سالار بیجو خاں نے قونیہ پر حملہ کیا اور اپنی فوجیں شہر کے چاروں طرف پھیلا دیں تو اہل شہر تنگ آکر مولانا رومؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اور عرض کی کہ اس قہر کو شہر برباد ہونے سے روک دیں ۔ آپؒ نے ایک ٹیلے پر جو بیجو خاں کے خیمہ گاہ کے سامنے تھا جا کر مصلےٰ بچھا دیا اور نماز پڑھنی شروع کر دی۔
بیجو خاں کے سپاہیوں نے جب آپؒ کو دیکھا تو تیر چلا کر آپؒ کو ہلاک کر نا چاہا۔ مگر کمانیں کھینچ نہ سکیں۔ آخر گھوڑے بڑھائے تاکہ تلوار سے قتل کردیں لیکن گھوڑے بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکے۔ تمام شہر میں غل غپاڑہ پڑگیا۔
سپاہیوں نے بیجو خاں سے جا کر یہ واقعہ بیان کیا۔ اس پر اس نے خیمہ سے نکل کر خود مولانا رومؒ پر کئی تیر چلائے مگر ایک بھی مولانا رومؒ کو جا کر نہ لگا۔ جھلا کر گھوڑے سے اُتر پڑا اور مولاناؒ کی طرف چلا لیکن پاؤں نہ اُٹھ سکے۔ آخر محاصرہ چھوڑ کر چلا گیا۔اور شہر قونیہ ایک ولی اللہ کی برکت و فیض سے قیامت صغریٰ سے بچ گیا ۔