مٹر اور ٹماٹر مہنگے،وزراء کی نمک پاشی اور سموگ!
صبح نماز کے لئے مساجد میں جانے والے نمازیوں کے منہ پر ماسک کچھ عجیب لگ رہے تھے، تاہم یہ ان کی مجبوری تھی اور جو حضرات اُٹھ کر یونہی چلے آئے وہ کھانس رہے تھے،اس کی وجہ بادل سا محسوس ہوتا وہ دھواں تھا جسے آج کل سموگ کہا جاتا ہے کہ دھواں ہی شبنم کے باعث ہلکے بادلوں کے ساتھ مل کر ایک چادر سی تان دیتا ہے،اسی کو سموگ کہا جاتا ہے۔ ہم خود بھی ماسک والے تھے کہ صاحبزادے نے ابتدائی ایام ہی میں یہ تحفہ دیا تھا اور ہم احتیاط کے طور پر ماسک کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلتے،جب واپسی پر خبریں دیکھیں تو معلوم ہوا کہ دو تین دن تک صورتِ حال بہتر رہنے کے بعد پھر خراب ہوئی، عالمی پیمانے کے مطابق یوں بھی لاہور اب آلودگی میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے، بھارتی دارالحکومت دہلی اپنا اول یا پہلا نمبر چھوڑنے پر تیار نہیں۔
سموگ کے حوالے سے محکمہ ماحولیات کے ہینڈ آؤٹ پڑھتے پڑھتے آنکھیں بھی دُکھ گئی ہیں،لیکن سموگ کی شدت میں کوئی کمی نظر نہیں آتی،ماحولیات والے حضرات کے مطابق بھٹہ خشت بند کروائے تو دھواں دینے والی فیکٹریاں بھی بند کروائی ہیں، یہاں تک تو ٹھیک کہ ہینڈ آؤٹ میں فیکٹریوں کا علاقہ بھی بتایا جاتا ہے،لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے،جب محکمہ کی طرف سے دھواں دینے والی گاڑیوں کے خلاف بھی کارروائی کا ذکر کیا جاتا ہے اور سڑکوں پر دھواں دیتے رکشا، گاڑیاں اور موٹر سائیکل نظر آ جاتی ہیں،یہ تو وہ علاقے یا حدود ہیں، جو محکمہ ماحولیات کے علم میں ہیں،لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوڑا جلانے وا لوں کو بھی روکا گیا ہو یا ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہو، یہاں تو پی ایچ اے کے باغبان (مالی) حضرات درختوں سے گرنے والے پتوں اور ٹہنیوں کے ڈھیر جلاتے رہتے ہیں،اور جھگیوں والے کوڑا جلاتے ہیں۔ پی ایچ اے کے یہ باغبان یہ جھاڑ جھنکار اُٹھا کر لے جانے سے گریز کرتے ہیں،لیکن جھگیوں والے اور ان کے ساتھ کچی آبادیوں والے مچھر بھگانے کے لئے کوڑا جلا کر دھواں پھیلاتے ہیں۔
یوں آلودگی کے دوسرے ذرائع کے ساتھ یہ بھی ”اضافیت“ ہے۔ اس طرف توجہ تو دلائی جاتی ہے،لیکن محکمہ والوں کو کوئی فکر اور پرواہ نہیں، حالانکہ وہ خود اور ان کی فیملیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔اللہ کرے یہ حضرات اپنے فرائض پورے کریں اور آلودگی میں کمی کے لئے سنجیدہ کوشش کریں۔اگرچہ لوگ تو اللہ ہی سے دُعا گو ہیں کہ مینہہ ہی برسا دے تاکہ اس آلودگی (سموگ) سے جان چھوٹے۔
قارئین! بات تو آج ہلکی پھلکی کرنا تھی،لیکن صبح کے وقت ہی سموگ کے حلقہ نے مجبور کیا کہ ادھر بھی توجہ دی جائے، شاید تھوڑے لکھے کو زیادہ جان کر محکموں کو خیال آ ہی جائے کہ ”سموگ“ نے صحت کے بے شمار مسائل پیدا کر دیئے ہیں،ان کو دور یا حل کرنا ہی شہریوں کی خدمت ہو سکتی ہے۔ بہرحال ”اچھے“ کی توقع کے ساتھ بات یہیں تک رکھتے ہیں۔
آج کل سوشل میڈیا پر وفاقی مشیروں اور وزرا کی گفتگو اور خوشخبریاں ہی بہت بڑا موضوع ہیں، ابھی گزشتہ دِنوں کی جانے والی باتوں کا چرچا تھا کہ آج پھر ایک وفاقی وزیر نے ایک اور نئی بات کہہ دی ہے، وفاقی وزیر ہوا بازی سرور خان پرانے سیاسی کارکن اور لیڈر ہیں یہ پہلے بھی وزیر رہ چکے اور اب ہوا بازی کی وفاقی وزارت والی کرسی پر براجمان ہیں۔ گزشتہ دِنوں ان کی طرف سے ”ڈیل“ کے حوالے سے ایک بیان سرزد ہو گیا، جسے اسلام آباد کی اعلیٰ عدلیہ نے مقدمہ اور عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کے مترادف جانا، چنانچہ ان سے پہلے مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت میں طلب کیا گیا تو اب ان کو بھی بُلا لیا گیا، آج (جمعرات) دونوں افراد کی تاریخ تھی اور یہ پیش ہوئے۔ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے تو غیر مشروط معافی کی درخواست کر کے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔ سرور خان کی پہلی پیشی تھی،سماعت چیف جسٹس مسٹر جٹس اطہر من اللہ کر رہے ہیں، انہوں نے سرور خان سے پوچھا کہ ان کے کتنے ووٹر ہیں،جواب ملا ”دو لاکھ“ استفسار ہوا، ان کی آپ عزت کرتے ہیں، جواب آیا، جی! ہاں،جب بیان کے بارے میں بات ہوئی تو محترم سرور خان نے کہا ”مَیں ایک سیاسی کارکن ہوں اور یہ سیاسی بیان تھا، مَیں عدلیہ کی توہین کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا،فاضل چیف جسٹس نے کہا آپ وفاقی وزیر ہیں اور ایسا بیان دیتے ہیں۔
یہ تو تازہ بتازہ ہے، جس پر نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے تاہم دلچسپ بات تو وہ ہے جو خود سرور خان نے کہی اور میڈم فردوس عاشق اعوان نے آگے بڑھا دی۔ وہ کہتے ہیں،”مٹر کی بات کرتے ہیں، ہمارے ہاں تو مٹر5 روپے کلو ہیں جتنے مرضی آ کر لے جائیں،ہم سے پانچ روپے فی کلو خریدنے والے ایک سو روپے فی کلو بیچتے ہیں۔اس پر میڈم فردوس عاشق نے بریفنگ کے دوران گرہ لگائی کہ مٹر پانچ روپے فی کلو ہیں،اس سے پہلے محترم مشیر خزانہ کہہ چکے تھے کہ ٹماٹر تو17روپے فی کلو ہیں، کوئی بھی کراچی کی سبزی منڈی سے خرید سکتا ہے، وزرا حضرات کی ان معلومات پر سوشل میڈیا میں خوب دھوم ہے اور یہ ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے،اس حوالے سے تو کارٹونبھی بن گئے ہیں، ہمیں بھی ان حضرات کی معلومات پر حیرت ہوئی اور ایک پرانا قصہ یاد آ گیا وہ بھی آئی یم ایف سے آئے مہربان ہی سے متعلق ہے۔
یہ ایوب خان دور تھا اور ان کے وزیر خزانہ محترم شعیب تھے وہ بھی بہت بڑے ماہر معاشیات دان تھے،بازار میں چینی ایک چونی (روپے کا چوتھائی حصہ) مہنگی ہوئی، بڑا واویلا ہوا، جب اسلام آباد میں شعیب صاحب سے سوال کیا گیا تو وہ بڑے معصومیت سے بولے:مجھے تو علم نہیں، سودا میری بیگم خریدتی ہیں“ اب یہ معلوم نہیں کہ مشیر خزانہ کی خانہ داری کا کیا سلسلہ ہے کہ ان کو 17روپے فی کلو ٹماٹر مل جاتے ہیں اور جہاں تک سرور خان کی اس پیشکش کا تعلق ہے کہ مٹر پانچ روپے فی کلو ان سے لے لیں تو چند پُرجوش نوجوان یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ پانچ سو افراد ان کے گاؤں جا کر مٹر خریدنے کی درخواست کریں گے، ہوشیار رہیں کہ یہ حضرات گاڑیوں کا پٹرول صرف کر کے آئیں گے۔