بیٹی زحمت نہیں رحمت ہے
شادی آنحضورؐ کی سنت ہے، نکاح شادی کے لئے لازمی ہے ورنہ شادی بے اثر اور گناہ کے زمرے میں آتی ہے۔ حضورؐ کی مثال ہم سب مسلمانوں کے لئے ایک پیغام ہے کہ جب لڑکا 25سال کا ہو جائے اور لڑکی 16یا 17برس کی ہو جائے تو دونوں کا نکاح کر دینا چاہئے اور شادی ایک مقدس فریضہ ہے،جو کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق اسے انجام دے دینا چاہئے۔والدین کو بھی چاہئے کہ وہ اس نیک کام میں دیر نہ کریں اور اپنے بچوں کی شادی اُُن کے جوان ہونے کے بعد کر دیں یہ حکم قرآن پاک میں بھی درج ہے۔
آنحضورؐ نے25سال کی عمر میں شادی کی تھی۔ اُن کی شادی حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ سے ہوئی، شادی کے وقت وہ40سال کی تھیں، اسلام اِس بات کی اجازت دیتا ہے کہ جوان لڑکے اور جوان لڑکی کی شادی کر کے بے شمار لغو اور فضول رسومات سے بچ جائے اور جب کسی شادی کے جوڑے کے ہاں اولاد،یعنی بیٹی یا بیٹا پیدا ہوں تو اُن کے اچھے نام رکھیں۔ اگر بیٹی پیدا ہو تو مُُنہ چھپانے اور اُس نومولود بیٹی کو اپنے لئے زحمت نہ سمجھیں، بلکہ بیٹی تو خدا کی طرف سے عطا کہ وہ بیٹی پورے گھرانے کے لئے رحمت کا باعث بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دُنیا میں بھیجی گئی ایک بیٹی اوپر والے کا احسان ہوتا ہے۔ زمانہ ئ جاہلیت میں جب کسی فرد کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تھی، تو اس کے ماں باپ اُسے زندہ درگور کر دیتے تھے۔یہ بہت بڑی حماقت اور غلطی ہوتی تھی تاہم جب کسی ماں باپ کے ہاں بیٹا جنم لیتا تھا تو لوگ یا اُس کے گھر کے افراد خوشیاں مناتے تھے۔ یہ سرا سر اللہ تعالیٰ کی ناشکری تھی، جس کی مذمت پورا عالم اسلام کرتا تھا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمدؐ کو دُنیا میں اپنا نبیؐ بنا کر بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں کہ جس طرح بیٹے کی پیدائش پر ماں باپ جشن مناتے ہیں اسی طرح بیٹی کے پیدا ہونے پر اُسے زندہ درگور کر کے مارنے کی غلطی نہ کریں۔ آج حضورؐ کی تعلیمات کا ہی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ والدین کے ہاں بیٹی پیدا ہو یا بیٹا وہ اُن کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے اُنہیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا اور اُسے رحمت بنا کر دُنیا میں بھیجا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میانہ روی اور محبت کا درس دیتا ہے خاص طور پر والدین کے لئے یہ بات پابند کر دی گئی کہ وہ بیٹے یا بیٹی کے اس دُنیا میں بھیجے جانے پر امتیازی سلوک نہ کریں اور جس طرح بیٹے کے دُنیا میں آنے پر خوش ہوتے ہیں اور اپنی زندگی میں اُسے خوش قسمت گردانتے ہیں اسی طرح بیٹی کی پیدائش پر سیخ پا نہ ہوں اور دونوں کے ساتھ پیار و محبت کا اظہار کریں اور اُن کے ساتھ برابری کا سلوک کریں۔
اللہ تعالیٰ جب کسی کو اولاد جیسی نعمت سے سرفراز کرتے ہیں تو وہ ساتھ اپنے ماں باپ کے لئے محبت اور خوشی کا پیغام بھی لاتے ہیں۔ خاص طور پر اسلامی تعلیمات کی رُو سے بیٹی جس نے کل ماں بننا ہے اُس کے ساتھ تو بُرا رویہ رکھنے کی بات بھی مُنہ سے نہیں نکالنی چاہئے اسی طرح جب خداوند کریم بیٹا عطا کرتا ہے تو اُسے بڑھاپے میں والدین کے ساتھ مل کر کام کاج کرنا ہوتا ہے اور اپنے ماں باپ کا ہر وہ حکم ماننا چاہئے جو قرآن مجید اور حضورؐ نے مسلمان والدین یا بیٹے اور بیٹی کے لئے لازمی قرار دیا ہے۔
اسلامی تعلیمات کے حساب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بیٹی زحمت اس لئے نہیں کہ جب اُس کی شادی ہوتی ہے تو کل کلاں کو اُس نے ماں بننا ہوتا ہے اور جب وہ ماں بنتی ہے تو ارشادِ نبویؐ کے اس قول کو ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے،یعنی جس بیٹے نے دُنیا میں آنکھ کھولی ہو تو جس طرح ماں نے تکلیف اور مصیبت میں بغیر اپنی پرواہ کئے اُسے جوان بنایا۔ اسلامی تعلیم اور دیگر، علم و درس سے آشنا کروایا اُسی طرح بیٹے کو بھی چاہئے کہ وہ بڑا ہو کر ماں باپ کی صدقِ دِل سے خدمت کرے۔ اُن کی صحت کا خیال رکھے اور جب کبھی وہ بیمار ہو جائیں تو اُن کا علاج معالجہ کرانے اور اُن کی تیمار داری کرنے میں آگے آگے ہو۔ اسی میں اللہ تعالیٰ کی خوشی اور مسرت ہوتی ہے۔ آج کل کے زمانے میں زمانہئ جاہلیت کے مقابلے میں اکثر گھرانوں کی بیٹی کی پیدائش پر ماں باپ خوش تو ہوتے ہیں،مگر سرد مہری کے ساتھ سلوک روا رکھتے ہیں،جبکہ بیٹے کے دُنیا میں آنے پر ڈھیر ساری خوشیاں مناتی ہیں اور اُسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ہمیں یہ رویہ اب ترک کر دینا چاہئے،کیونکہ ہمارے نزدیک بیٹا ہو یا بیٹی دونوں کو زحمت نہیں،بلکہ رحمت سمجھنا چاہئے۔