پاکستان کے خلاف بھارت کی دہشت گردی مہم
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے بھارت ہے۔ سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لئے بھارت نے خصوصی ملیشیا بنائی انہوں نے خبردار کیا کہ نومبر اور دسمبر میں کراچی، لاہور اور پشاور میں بھارتی دہشت گردی کے بڑے واقعات کا خطرہ ہے۔ بھارت دہشت گردوں کو تربیت اور اسلحہ فراہم کر رہا ہے اور کالعدم تنظیموں کا کنسورشیم بنا رہا ہے۔ افغانستان میں بھارتی سفارت خانہ اور قونصل خانے پاکستان مخالف سرگرمیوں کا گڑھ بن چکے ہیں۔ کابل کے سفارت خانے میں تعینات بھارتی کرنل راجیش دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہے اور چار بار دہشت گردوں سے ملاقاتیں کر چکا ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی، داعش پاکستان بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ”را“ نے حال ہی میں تیس داعش دہشت گردوں کو پاکستان اور اردگرد منتقل کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیموں میں اربوں روپے تقسیم کئے جا رہے ہیں۔ الطاف حسین گروپ کو بھی بھارتی خفیہ ایجنسی نے دو کمپنیوں کے ذریعے فنڈنگ کی اجمل پہاڑی نے چیف جسٹس کے سامنے بھارت میں چار دہشت گرد کیمپوں کی موجودگی کا اعتراف کیا ان کیمپوں میں الطاف حسین گروپ کے 40دہشت گردوں نے تربیت لی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں دہشت گردی کی کوشش کر رہا ہے اور سرحدی علاقے میں آئی ای ڈیز لگانے میں ملوث ہے۔ کراچی میں راسپانسرڈ سیلپرسیل پکڑا گیا ہے۔ گوادر پی سی ہوٹل پر حملے کی منصوبہ بندی ”را“ کے افسر انوراک سنگھ نے کی اس حملے میں بی ایل ایف بی ایل ملوث تھیں انوراک سنگھ کوحملے کے لئے اعشاریہ 5ملین ڈالر دیئے گئے اللہ نذر مقامی دہشت گردوں اور بھارت کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنا۔ بھارت، پاکستان مخالف قوتوں کو متحد کرکے اُکسا رہا ہے۔ کابل میں بھارتی سفارت خانہ بلوچ دھڑوں کو فنڈنگ دے رہا ہے۔ بھارت نے 0.82ملین ڈالر ٹی ٹی پی کمانڈر کو منتقل کئے۔ بلوچستان میں انتشار کے لئے 23.5ملین ڈالر دیئے۔ الطاف حسین گروپ کو 3.23ملین ڈالر کی رقم دی گئی دہشت گرد تنظیموں کی مالی مددا ور اسلحہ فراہمی کے ثبوت موجود ہیں۔ اے پی ایس پر حملے کے بعد جلال آباد میں بھارتی قونصل خانے میں جشن منایا گیا ان خیالات کا اظہار ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں کیا۔
پاکستان میں دہشت گردی کی جو وارداتیں ہوتی رہی ہیں ان میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت پہلے بھی سامنے آتے رہے اور ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں کہ دہشت گردی کی وارداتوں کے پیچھے بھارت ہے۔ اب خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ رواں ماہ اور اگلے مہینے دسمبر میں پاکستان کے تین بڑے شہروں میں دہشت گردی کے امکانات موجود ہیں۔ بھارت میں داعش کے دہشت گردوں کی موجودگی اور مودی حکومت کی جانب سے اس کی سرپرستی کا تذکرہ تو بہت عرصے سے ہو رہا ہے۔ بھارتی خفیہ ادارے اور داعش کے دہشت گردوں کے رابطے بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہم ان کالموں میں کئی بار خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ بھارت داعش کے ان دہشت گردوں کو پاکستان منتقل کرنے کی کوشش کرے گا، اب ڈی جی آئی ایس پی آر نے بروقت خبردار کر دیا ہے کہ بھارت ان دہشت گردوں کے ایک گروپ کو افغانستان لے آیا ہے اور انہیں پاکستان یا ”اردگرد کے علاقوں“ میں منتقل کررہا ہے۔ اردگرد کے یہ علاقے افغانستان کی سرزمین ہی ہو سکتے ہیں اور تو کوئی ایسا علاقہ نظر نہیں آتا جہاں سے وہ دہشت گردوں کو پاکستان منتقل کر سکتا ہو، بھارت کے ساتھ پاکستان کی جو سرحد ملتی ہے وہاں سے اگر دہشت گردوں کو پاکستان بھیجنا ممکن ہوتا تو بھارت اب تک یہ بھی کر گزرتا، وہ اگر اس مقصد کے لئے افغان سرزمین استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ براہِ راست بھارتی سرحد کے ذریعے ایسا کرنا بھارت کے لئے ممکن نہیں، اب جبکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بڑی تفصیل کے ساتھ بتا دیا ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ کن کن دہشت گرد گروہوں سے رابطہ میں ہے اور کس کس طرح انہیں فنڈنگ کی جاتی ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ اسی مہینے اور اگلے مہینے میں دہشت گردی کے بڑے واقعات ہو سکتے ہیں تو یہ صروری ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کے لئے ابھی سے پیش بندی کر لی جائے کیونکہ اگر بھارتی منصوبہ بندی کے بارے میں مصدقہ اطلاعات پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو مل چکی ہے تو اب ان کی پیش بندی اور روک تھام کے لئے ہر ممکن اقدامات ضروری ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے مستعد اداروں نے پہلے ہی ایسے انتظامات بھی کر لئے ہوں گے جن کی وجہ سے دہشت گردی کی وارداتوں پر کڑی نظر رکھی جا سکے گی اور ان کی روک تھام ممکن ہو گی، تاہم تمام تر انتظامات کے باوجود حالیہ ہفتوں میں بعض مقامات پر دہشت گرد بہت سی وارداتیں کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ آئندہ ان وطن دشمنوں کو ان کے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔
ماضی میں داعش نے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور اس مفہوم کی اطلاعات بھی آتی رہیں کہ داعش کے دہشت گرد پاکستان کی سرزمین میں موجود ہیں اگرچہ ان کی وسیع تر موجودگی کا امکان تو رد کر دیا گیا تھا تاہم بعض وارداتوں کے انداز سے یہ ضرور لگتا تھا کہ یہ داعش کی طرز پر ہی پلان کی گئی ہیں۔ چند وارداتوں کے بعد مزید وارداتوں کا سلسلہ رک گیا تو اندازہ ہوا کہ داعش کو قدم جمانے میں کامیابی نہیں ہوئی، تاہم اگر بھارت اب کوشش کر رہا ہے کہ اس کے دہشت گردوں کو اپنی نگرانی میں پاکستان میں داخل کر دے یا اگر ایسا ممکن نہ ہو تو سرحدی علاقوں میں ان کے ٹھکانے بنوا دے تو پھر اس سارے معاملے کو افغانستان کے ساتھ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگلے ہفتے وزیراعظم عمران خان کا دورۂ افغانستان متوقع ہے تو بھارتی دہشت گردی کے حوالے سے جو مواد میجر جنرل بابر افتخار سامنے لائے ہیں اس میں سے جو حصہ افغانستان سے متعلق ہے وہ افغان حکام کے سامنے رکھنا چاہیے، بھارت، پاکستان میں جو بھی دہشت گردی کر رہا ہے اس کے لئے افغان سرزمین ہی استعمال ہو رہی ہے اور ایسی سرگرمیوں میں افغانستان میں بھارتی قونصل خانے ملوث ہیں یہ کھلم کھلا ریاستی دہشت گردی ہے، اس کے شواہد نہ صرف افغان حکام کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کے ساتھ بھی ایسی معلومات کا تبادلہ ہونا چاہیے تاکہ بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آ سکے جو بات تو امن کی کرتا ہے اور الزام تراشی پاکستان پر کرتا ہے لیکن دہشت گردی کے نیٹ ورک بنا کر اور اس کی فنڈنگ کرکے اس کوفروغ دے رہا ہے، توقع ہے کہ افغان حکام کو بھی یہ معلومات دے دی جائیں گی تاکہ وہ بھی اپنی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے دیں۔