اُوں،اُوں دی آوازاں 

اُوں،اُوں دی آوازاں 
 اُوں،اُوں دی آوازاں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لو جی انقلاب کی کھوتی ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے بوڑھ تھلے آگئی ہے ہماری آپا نے تو جمہوریت کا کھوتا ہی کھوں میں پھینک دیا۔سمجھ نہیں آرہا بڑے بھیا کی بات پر سر دھنیں یا ان کی صاحبزادی کے بیان پر دھمال ڈالیں۔بڑے بھیا کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے کبھی کسی منتخب وزیر اعظم کو وقت پورا نہیں کرنے دیا۔اب ان کی صاحبزادی کہہ رہی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ایک منتخب وزیر اعظم کو پہلے گھر بھیجے پھر ان سے بات کرے۔دیکھیں ہم تو لگ بھگ پچہتر سال سے انوکھے لاڈلوں کو کھیلن کے لئے چاند مانگتے دیکھ ہی رہے ہیں۔اگر مریم بی بی عطار کے لونڈے سے دوا مانگ رہی ہیں تو کوئی وکھری ٹائپ کی بات نہیں۔یہاں 47ء سے ایک ہی فلم شرطیہ نواں پرنٹ کے نام پر چل رہی ہے۔”دھرتی شیر جواناں دی“سے لیکر ”بہار و پھول برساؤ“تک تمام فلموں کا سکرپٹ ایک ہی ہے بس اس میں کرداروں کے چہرے بدل جاتے ہیں۔بہر حال مریم بی بی کو زبیدہ آپا کی طرح یہ ٹوٹکا بھی بتا دینا چاہیے تھا کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت کو کس طرح گھر بھیجے۔ایک طریقہ تویہ اور یہ خاصہ پر امن بھی ہے کہ آرمی چیف وزیر اعظم کو فون کریں اور کہیں کہ یار عمران خان کیونکہ مریم بی بی ہم سے بات کرنا چاہتی ہیں اس لئے آپ پلیز گھر چلے جاؤ۔

اور عمران بھی اوکے باس کہتے ہوئے اپنا کاؤنٹی کرکٹ والا ٹریک سوٹ موڈھے پر ڈالیں چیہ چیہ  چرخہ چلے گا تے بنی گالہ ہولا ہولا لا کہتے روانہ ہو جائیں۔دوسرا طریقہ ذرا تکلیف دہ ہے مریم بی بی اپنی پراڈو پر بیٹھیں ان کے پیچھے ایک برگیڈ فو ج ہو وہ وزیر اعظم ہاؤس کے باہر جا کر سپیکر پر اعلان کریں کہ بھئی عمران خان اسٹیبلشمنٹ نے ہماری بات مان لی ہے ”ہن تسی چھٹی کرو“۔سنتا سنگھ نے فیس بک پر بننے والی اپنی نئی محبوبہ کو کہا کہ پلیز مجھ سے فون پر بات کرو، وہ بولی سردار جی میں گونگی ہوں،سنتا سنگھ نے میسج کیا بات میں کروں گا ”تسی“بس اُوں اُوں کردے رہنا۔مریم کے اس اعلان پریقیناًعمران خان اوں اوں  ٹھوڑا کریں گے۔ان کے پیا تو ویسے بھی  بہلے کوتوال ہیں۔وہ کہہ سکتے ہیں ضد نہ کرو”سوہنیا“خان تے آپ بڑا ضدی ہے۔افسوس اس لیڈر شپ پر ایک لمحے میں اس کا اصل چہرہ سامنے آجاتا ہے۔

اس سیاست میں ’جنوں بھنوں“گے”اوہی لال“نکلے گا۔”اوتوں اوتوں رولا پائی جاؤ اندرو اندری کھائی جاؤ“۔ویسے بڑے بھیا کو مریم کے اس بیان کی وضاحت ضرر کرنی چاہیے۔خیر انہوں نے کیا وضاحت کرنی ہم تو ایک عرصہ سے کہہ رہے ہیں یہ اقتدار،یہ حکومت،یہ منصب سب ”ایلیٹ کلاس“کے بچوں کی ”پبھ جی“ہے۔بنتا سنگھ نے دیکھا کنوے پر بیل پانی نکالے جا رہا ہے اس کے چلنے سے اس کے گلے میں بندھی گھنٹی مسلسل ٹنگ ٹنگ ٹنگ کر رہی ہے۔اور اس بیل کا مالک سنتا سنگھ دور بیٹھا گنے چوپ رہا ہے،بنتا اس کے پاس گیا بولا یار یہ بیل کے گلے میں گھنٹی کیوں باندھی ہے،سنتا سنگھ بولا تا کہ اگر یہ رک جائے تو مجھے پتہ چل جائے،بنتا سنگھ بولا اور اگر یہ بیل اپنی جگہ پر ہی کھڑا ہو کر سر ہلاتا رہے تو؟سنتا سنگھ بولا سردار جی یہ بیل ہے کوئی آپ کی طرح کا دانشور نہیں،یہ ایسے ہی چلتا رہے گا اور گھنٹی بجتی رہے گی۔سو میرے بیس،بائیس کروڑ پاکستانیوں تمھارا کام چلتے رہنا اور گنھٹی بجاتے رہنا ہے۔آندھی آئے،طوفان آئے،سیلاب آئے تم نے رکنا نہیں ہے۔

تمھارے بچے بھوکے مریں،تم خودکشیاں کرو،تمہاری بچیاں جہیز نا ملنے پر گھر بیٹھی بوڑھی ہو جائیں۔گرمیوں میں ٹین چھتیں تمہیں جھلسائیں یا سردیوں میں ٹھنڈ کڑا کے کڈ دے۔تم نے رکنا نہیں۔بھٹو آئے،ضیاء  الحق آئے،بی بی آئے،میاں آئے یا میانوالا آئے تم ڈھگوں نے یہ پوچھنا کہ ہم قومی وسائل سے پانی نکال کر تمہارے کاروباروں،تجوریوں،بنک اکاؤنٹوں کی آبیاری کریں اور تم کبھی لندن کبھی نیویارک کبھی آسٹریلیا بیٹھ کر گنے چوپتے رہو۔تم نے یہ نہیں پوچھنا کہ آج حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے گھسن مکی گالو گال ہو رہی ہے۔لیکن اس میں عوام اور ان کے مسائل وجہ تنازعہ کیوں نہیں ہیں۔کیا کبھی نواز شریف،عمران خان،بلاول،مریم،فضل الرحمن نے ایک دن بھی تمہارے جیسے وحشت زدہ بھوک کی ماری،افلاس کی ماری زندگی گذاری ہے؟کیا وہ بیٹیوں کے بوڑھے ہوتے چہروں کی تکلیف،بیٹوں کی بے روز گاری،خالی ہنڈیاں میں چلتے  چمچ کی آواز سے واقف ہیں؟۔

خیر چھوڑو تم ایک جگہ کھڑے ہو ہی نہیں سکتے۔تمہیں کھوکھلے نعرے اور دکھائے گئے جھوٹے خواب کبھی رکنے ہی نہیں دیں گے۔ڈھگو او ڈھگو کم از کم گھنٹی کی آواز پرایک آواز کے ساتھ اتنا تو کہو رج رج کے کھا بیلیا رج رج کے کھا،تمہارا کام ہے مرنا اور بھوک سے خون تھوکتے مرنا۔اور تمہارے لیڈر یہاں سے رسواء ہو بھی جائیں تو ایک جنت سے نکل کر دوسری جنت میں ہی جائیں گے۔ارے یہ وہ خوش نصیب ہیں کہ اگر انہیں دریا میں بھی دھکا دے دیں تو منہ میں پانچ،سات سنہری مچھلیاں دبائے باہر آجائیں گے۔


واہ اے ایس آئی محمد بخش سلام ہے ہمارا آپ کو۔ارے یار اس قحط الرجال میں بھی ہیرو پیدا ہوتے ہیں اور وہ بھی آپ جیسے۔آپ نے فرض شناسی کے لئے اپنی بیٹی داؤ پر لگا دی۔love you  یار۔لیکن تم اے ایس آئی کے اے ایس آئی ہی مر و گے۔آئی جیز تو نظام سیدھا کرنے کے نام اپنے وڈیروں،آقاؤں کے کام سیدھے کرتے رہیں گے۔سلام آپ کو میرے ہیرو محمد بخش اور آپ کی عظم بیٹی پر  ۔میری وزیر اعظم سے درخاست ہے کہ آپ کو قومی ایوارڈ سے نوازیں،ترقی نہیں ترقیاں دیں،ہر تھانے میں آپ کی فوٹو لگوائیں،بس اس کے علاوہ کوئی نوٹس نہ لیں کہیں آپ کی ترقی کے بجائے تنزلی ہو جائے۔ 

مزید :

رائے -کالم -