چہرۂ پاکستان ……گلگت، بلتستان

چہرۂ پاکستان ……گلگت، بلتستان
چہرۂ پاکستان ……گلگت، بلتستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


برف پوش وادیوں، شفاف جھیلوں، کے ٹو اور نانگا پربت سمیت دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کا مالک گلگت بلتستان اس وقت پورے پاکستان، بلکہ پورے جنوبی ایشیا، بلکہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دنیا کے تین طویل ترین گلیشیئر بھی اسی علاقے میں پائے جاتے ہیں اور دنیا بھر سے سیاحوں کو کھینچ کھینچ کر یہاں لاتے ہیں۔ اس کا رقبہ 30ہزار مربع میل سے کچھ کم ہے اور آبادی 20لاکھ کے قریب، گویا لاہور کے پانچویں اور کراچی کے دسویں حصے سے بھی کم، لیکن اس نے 28 لاکھ مربع میل اور کم و بیش 22کروڑ آبادی والے ملک کو گرفت میں لے رکھا ہے۔ مقامی اسمبلی کی 24نشستوں پر ہونے والے انتخابات سے گرمی کی وہ لہریں اٹھی ہیں کہ نہ صرف یہاں کا برفیلا ماحول اپنی ٹھنڈک کھو بیٹھا ہے، بلکہ ملک بھر میں درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار یہاں ایسی انتخابی مہم چلی ہے کہ بڑے بڑوں کے پسینے چھوٹ گئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بنفس نفیس ایک جلسے سے خطاب کرنے پہنچے، اگرچہ کہ اوٹ یہاں کے قومی دن (ڈوگرہ مہاراجہ سے حصول آزادی کے حوالے سے) کی تقریب میں شرکت کی تھی، تاہم تقریر پوری کی پوری انتخابی تھی۔ اپنے حریفان سیاست پر وہ ٹوٹے پڑ رہے تھے۔

ان کے وزرائے گرامی نے تو یہاں لمبے ڈیرے ڈالے رکھے اور ڈنکے کی چوٹ ایسی زبان استعمال کرتے رہے کہ جس پر شرم سے پہاڑوں کے سر بھی جھک گئے ہوں گے۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے نوجوان رہنماؤں بلاول بھٹو زرداری اور مریم نوازشریف نے بھی یہاں طویل پڑاؤ ڈالے رکھا اور بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا۔ بلاول بھٹو نے تو یہاں طویل قیام اور بھرپور تقریروں کا ریکارڈ ہی قائم کر دیا۔ یہاں کی سیاست پر انہوں نے گہرے اثرات مرتب کئے اور قومی سیاست میں اپنی اہمیت اور حیثیت میں بھی اضافہ کر گزرے۔ انتخابی سروے بتا رہے ہیں کہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی دوڑ میں آگے ہیں، جبکہ مسلم لیگ(ن) کو مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔

اس کے کئی امیدوار قبل از انتخاب ہی پارٹی چھوڑ گئے تھے، جو میدان میں ہیں، وہ بھی میاں نوازشریف کے بیانیے تلے خود کو دبا دبا محسوس کر رہے ہیں۔24نشستوں پر تین سو سے زائد امیدوار اکھاڑے میں اترے ہوئے ہیں۔ سات لاکھ سے زیادہ رائے دہندگان کو ان میں سے انتخاب کرنا ہے۔ یہاں کے ضلع تانگیر سے سعدیہ دانش نامی خاتون بھی پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کے حلقے پر ان انتہا پسند قبائلیوں (یا ملاؤں) کی گرفت ہے جو عورتوں کو ووٹ کا حق دینے پر تیار نہیں ہیں۔ سعدیہ اپنے حلقے میں مہم نہیں چلا پا رہیں، انہیں دھمکیاں دی گئی تھیں کہ اگر وہ ووٹ مانگنے آئیں تو زندہ واپس نہیں جائیں گی۔


گلگت، بلتستان کے لوگ پاکستان کا باقاعدہ حصہ بننے کے لئے بے قرار ہیں۔ اس علاقے پر مہاراجہ کشمیر نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا تھا، جس کے خلاف بغاوت کرکے یہاں کے بہادر لوگوں نے آزادی کا پرچم لہرایا اور قیام پاکستان کے فوراً بعد نئی مملکت سے اپنا تعلق جوڑنے کا اعلان کر دیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق وہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہیں۔ جب کشمیر کے باشندوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ملے گا، یہاں کے رہنے والے بھی رائے دینے کے مجاز ہوں گے۔ کشمیر کے مستقبل کے فیصلے میں ان کے لاکھوں ووٹ بھی کردار ادا کریں گے، لیکن اس خطے کے لوگوں کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے آزادکشمیر حکومت کے قیام کے وقت انہیں اس کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ اس کا انتظام پاکستان کی وفاقی حکومت نے براہ راست سنبھالا۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم معاہدۂ شملہ کے بعد اس علاقے کی حیثیت تبدیل کرنا چاہتے تھے، لیکن پاکستان اور آزادکشمیر کے سیاستدان اس سے اتفاق نہیں کر پائے۔

پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں اسے ایک انتظامی حکم کے ذریعے صوبے کا درجہ دیا گیا، یہاں اسمبلی کا قیام عمل میں آیا، گورنر اور وزیراعلیٰ کے منصب بھی تخلیق ہو گئے، لیکن ان اقدامات کو دستوری تحفظ حاصل نہیں، نتیجتاً یہاں کی حکومت پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح خود مختار ہے، نہ ہی آزادکشمیر حکومت کی طرح کوئی باقاعدہ حیثیت رکھتی ہے۔ مقامی باشندے اس صورت حال پر خوش نہیں ہیں اور اپنے آپ کو ”ادھورا“ یا ”آدھا“ پاکستانی تصور کرتے ہیں۔ بھاری اکثریت کا اصرار ہے کہ انہیں باقاعدہ دستوری صوبے کی حیثیت دی جائے اور ان کی نمائندگی پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی ہو۔ قومی اسمبلی میں تو چند ہی نشستیں ان کے حصے میں آئیں گی، لیکن سینیٹ میں وہ دوسرے صوبوں کے برابر نمائندگی حاصل کر سکیں گے، یوں قومی سطح پر ان کی آواز بلند اور موثر ہو جائے گی۔


پاکستان میں بھی اب اس پر وسیع تر اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے کہ اس خطے کو عبوری طور پر باقاعدہ دستوری صوبے کا درجہ دے دیا جائے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے چند ہفتے پہلے اس معاملے پر تبادلہء خیال کے لئے تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو مدعو کیا تو وہاں یہ بات کہی گئی تھی کہ اس تبدیلی کا باقاعدہ اعلان انتخابات کے بعد کیا جائے۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اکثر رہنماؤں کا خیال تھا کہ قبل از انتخاب اعلان سے تحریک انصاف کو فائدہ ہو گا، بہت سے ووٹر خوشی میں جھومتے ہوئے تحریک انصاف کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال دیں گے…… لیکن وزیراعظم عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران یہاں پہنچ کر اپنی سی کر ڈالی۔ تحریک انصاف کے مخالف حلقے اسے ”پری پول رگنگ“ کا نام دینے سے گریز نہیں کرتے۔


اکثر تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ  گلگت بلتستان اسمبلی کے نتائج پاکستانی سیاست پر بھی اثرات مرتب کریں گے اور جو جماعت یہاں کامیاب ہو گی، پاکستانی سیاست میں بھی وہ سر اونچا کرکے چلنے کی کوشش کرے گی۔ گلگت اور بلتستان کی بدولت پاکستان کو چین کی ہمسائیگی کا شرف حاصل ہے۔ ہمارے علاقے میں یہ سی پیک کا نقطہء آغاز ہے۔ اس کی اہمیت اس کے رقبے اور آبادی سے کہیں بڑھ کر ہے۔اسے پاکستان کے چہرے کی سی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔چہرے کو اگر ترازو میں تولا جائے گا تو اس کا وزن چند کلو سے زیادہ نہیں ہوتا،لیکن اگر اسے جسم سے الگ کر دیا جائے تو پورا جسم خاک کا ڈھیر بن کر  رہ جاتا ہے۔ چہرہ اپنے سے کئی گنا بڑے جسم کو تشخص اور حسن عطا کرتا ہے۔

آنکھیں،لب، رخسار، جن کی شان میں دنیا کی ہر زبان کے شعرا نے ہزاروں کیا لاکھوں اشعار کہہ رکھے ہیں اور جن پر اہلِ دل قربان ہو ہو جاتے ہیں، چہرے ہی کا حصہ ہیں۔ خوب صورت چہرے والا ہی حسین کہلاتا  اور توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ بینائی، قوت گویائی، شنوائی سب چہرے کی بدولت ہیں۔ اگر یہ نہ ہو تو نہ سننے کی صلاحیت رہتی ہے، نہ دیکھنے کی، نہ چکھنے کی اور نہ سونگھنے کی…… اہلِ پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اپنے چہرے کی فکر کریں، اس کی زینت میں اضافہ کریں، گلگت بلتستان جا کر پاکستانی سیاست کے گندے کپڑے دھونے اور یہاں کی غلاظت سے وہاں آلودگی پیدا کرنے کے بجائے، وہاں کے حسن اور خوبصورتی کو چاروں صوبوں میں پھیلائیں کہ چہرہ ہی تعارف ہے، چہرہ ہی پہچان، اس کی حفاظت ہی سے شخصیت کی حفاظت ممکن ہے۔چہرہ پاکستان…… گلگت،بلتستان
]یہ کالم روزنامہ ”پاکستان“ اور روزنامہ ”دنیا“ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔[

مزید :

رائے -کالم -