رزق کیا ہے اور کہاں سے ملتا ہے؟؟
اوپر دیا گیا سوال مذہبی بھی ہے، قانونی اور سماجی بھی، ہم(مسلمانوں) کا ایک طرف پختہ یقین ہے کہ رزق اللہ رب العزت دیتا ہے جبکہ دوسری طرف ہم دنیا میں سب سے زیادہ جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی اور فساد رزق کے لیے کرتے ہیں، اس طرح ہم منافقت کی تصویر بن جاتے ہیں سوال یہ بھی ہے کہ اگر رزق اللہ تعالیٰ نے ہی دینا ہے تو ہمیں پردیس کے دھکے کھانے اور اپنوں سے جدائیاں دئیے بغیر کیوں نہیں دیتا۔ غربت اور امارت کے فیصلے اگر مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں تو پھر کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سنگاپور، جاپان، سیکنڈنیوین ممالک اور کئی یورپی ممالک میں غربت کیوں نہیں ہے؟ کیا وہاں اللہ تعالیٰ نے سب کو امیر پیدا کیا ہے اور ہمارے ہاں، افریقہ اور ایشیا میں اکثریت کو غریب پیدا کیا ہے؟ اس کی کوئی وجہ یا دلیل ہے کہ یہ تقسیم اس طرح کیوں کی گئی ہے؟
جن ممالک کا اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ وہاں کوئی غریب نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہاں سب کے پاس یکساں مال و دولت ہے ان ممالک میں بھی ہر بندے کے مالی حالات اپنے ہیں اور دوسروں سے مختلف ہیں، کئی ملٹی میلینز ہیں تو کچھ ہاتھ سے منہ تک گزارہ کرتے ہیں ایک طرح وہاں امیر اور غریب بھی ہیں لیکن وہاں غربت یہ نہیں کہ لوگ بھوکے مریں یا سڑکوں پر کھڑے گدا مانگیں وہ ایسے غریب نہیں کہ جن کے پاس کچھ بھی نہیں اور وہ مانگنے پر مجبور ہوں۔ ہر بندے کو روٹی کپڑا مکان سمیت زندگی کی تمام بنیادی اور ضروری سہولیات میسر ہیں۔۔
اب موضوع کے پہلے جملے کی طرف بڑھتے ہیں کہ رزق ہوتا کیا ہے؟ اسی سوال کے جواب میں یہ عقدہ بھی کھل جائے گا کہ امیر اور غریب میں فرق کیا ہے؟ عام طور پر رزق اس خوراک کو کہا جاتا ہے۔ جو انسان کو جسم اور سانس کا رشتہ بحال رکھنے کے لیے لازمی چاہیے ہوتا ہے، یا ہر وہ چیز جسے انسان بلکہ ہر جاندار اپنی بھوک اور پیاس مٹانے کے لیے حلق سے اندر اتارتا ہے لیکن اس کے ساتھ وہ زبان کا مزہ، چسکا یا ذائقہ بھی لیتا ہے۔ اسی کے ساتھ اس کی صحت اور بیماریاں بھی منسلک ہوتی ہیں۔ اگر تو یہی رزق ہے اور انسان خود کو اسی تک محدود رکھے تو پھر میرے خیال میں دنیا کے اندر امیر و غریب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے، اس حد تک سب کے لیے خوراک کافی ہے، لیکن چونکہ انسان جس خمیر سے بنا ہے اس نے پہلے دو انسانوں ہی سے یہ ظاہر کر دیا تھا کہ ہماری خواہشات کی کوئی حد مقرر نہیں کر سکتا، اور ہم جنت کی نعمتوں پر بھی اکتفا نہیں کرتے، پھر اب جبکہ ساڑھے سات ارب انسانوں کے بیچ مقابلے کی دوڑ ہے تو پھر ہم کیسے تصور کر لیں کہ انسان جائز رزق پر شکر گزار ہو جائے؟ البتہ انسان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوقات کے لیے رزق کا مطلب آج بھی وہی ہے کہ جو ان کی ضرورت ہے، اسی پر اللہ کے گیت گاتے ہیں۔۔ جبکہ انسان بڑے بڑے عالی شان محلات، بحری و فضائی بیڑوں، سونے، جواہرات زمینی مواصلات اور اپنی شان و شوکت کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور انہی اشیاء کے ترازو میں امیری یا غریبی کو تولا جا رہا ہے۔ اب اگر آپ ان اشیاء کو بھی رزق میں شامل کر کے امارت اور غربت کا فیصلہ کرتے ہیں تو میرا نہیں خیال کہ اللہ نے یہ تقسیم انسانوں کے لیے پیدا کی ہوگی۔ غور کریں کہ ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لیے اللہ نے پاؤں اور ٹانگیں عنایت کی ہیں۔ ساتھ ایسا دماغ بھی دیا کہ اگر جلدی ہے تو ایسی ایجادات کر سکتے ہیں یعنی سائیکل سے جہاز تک، لیکن اب ہم ضرورت کے لیے کم شان کے لیے زیادہ ایسی ایسی گاڑیوں، ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کا انتخاب کرتے ہیں کہ کوئی دوسرا ہمارا مقابلہ نہ کر سکے، یہ ضرورت نہیں بلکہ عیاشی اور خود کو دوسروں سے بالاتر رکھنے کی خواہش ہے۔ سوال کے دوسرے حصے کا تعلق رزق کی فراہمی کے ساتھ ہے کہ رزق کون دیتا ہے۔ اگر اللہ ہی روزی رساں ہے اور اسی طرح جیسے زیادہ تر مسلمانوں کا خیال ہے کہ اللہ نے ہر جاندار کا رزق مقرر کر رکھا یا لکھ رکھا ہے پھر کسی کو اس لکھے سے زیادہ مل سکتا ہے، نہ اس میں کمی ہوگی۔ پھر سوال یہ بھی ہے کہ ہم رزق کے لیے اتنی دوڑ بھاگ کیوں کر کرتے ہیں؟ بعض لوگوں کو جان توڑ محنت کے بعد بھی پورا رزق نہیں مل رہا اور بعض بیٹھے بٹھائے امیر ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف انسانوں کے علاوہ اللہ کی مخلوق، جنگلی جانور، چرند پرند اپنے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں اور جب اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر جائے تو پھر مزید کوئی لالچ کرتے ہیں نہ ذخیرہ اندوزی کی کوشش کرتے ہیں۔
راقم کا اپنا خیال یہ ہے کہ اللہ ہی رازق ہے مگر اس طرح نہیں جس طرح اکثریتی خلق کا عقیدہ ہے۔ بلکہ یہ اس طرح ہے کہ اللہ نے اپنی کائنات کے اندر جتنی مخلوقات پیدا کی ہیں ان کے لیے رزق(ضروریات زندگی) بھی اپنی کائنات میں رکھ دی ہیں اور ساتھ اپنی مخلوق کو عقل، سوچ اور جسمانی اعضاء بھی عطا کیے ہیں۔ تاکہ وہ اپنی روزی کی تلاش کریں اور اپنے حصے کا حاصل کر کے باقی دوسروں کے لیے رہنے دیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں متعدد بار یہ فرمایا ہے کہ یہ کائنات توازن پر قائم کی گئی ہے۔ اور انسانوں کو بھی میانہ روی کا حکم بار بار دیا گیا ہے۔ اس کی نشانیاں بھی جا بجا ملتی ہیں بشرطیکہ انسان غور کرے تو۔ اس وقت دنیا میں جن ممالک میں متوازن اور انصاف پر مبنی نظام ہائے زندگی ہیں۔ اور جنہوں نے محنت کی اور تحقیقات کیں وہی سب خوشحال ہیں اور جن کی سوچ جامد ہے۔ ملک میں وسائل کی تلاش کا کام کیا نہ میسر وسائل کی درست تقسیم کا نظام بنایا وہ بدحالی کا شکار ہیں۔ روزی تو ہر جگہ موجود ہے۔ اس کی تلاش اور تقسیمِ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جبکہ افراد کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اپنے وسائل کو دیکھے بغیر درجن بھر بچے پیدا کر دئیے جاتے ہیں۔ میری رائے حتمی نہیں ہے، مگر بطور قوم ہمیں سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔