اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ ہر پبلک مقام پر کہیں نہ کہیں یہ لکھا نظر آجاتا ہے، ”سیاسی گفتگو منع ہے“ پہلے یہ جملہ صرف حجام کی دکان یا کسی چائے کے کھوکھے پر لکھا جاتا تھا اب بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں میں بھی لکھا جانے لگا ہے۔ کیا سیاست اتنی ہی بُری شے ہو گئی ہے، کیا اس پر بات کرنا اتنا ہی شرپسندی والا کام ہے کہ جس کی ممانعت کے لئے اشتہار لگانے پڑ رہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں یہ ایک بڑے زوال کی علامت ہے۔یہ اس امر کا اشارہ ہے کہ ہم قوت برداشت سے محروم ہو چکے ہیں یہ اس بات کی بھی گواہی ہے کہ ہم دوسرے کا نقطہء نظر برداشت کرنا گوارا نہیں کرتے۔ تقسیم اتنی زیادہ ہے کہ نفرت نے دونوں کے درمیان دیوار کھڑی کر دی ہے۔ کل نوازشریف لندن میں پریس ٹاک کرتے ہوئے کہہ رہے تھے، یہ کس قسم کا گالم گلوچ والا کلچر متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ نوجوانوں کو کس راہ پر ڈال دیا گیا ہے کہ وہ گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں، ٹماٹر مارتے اور مغلظات بکتے ہیں۔ کیا اسے سیاست کہا جا سکتا ہے؟کیا یہی سیاسی تربیت ہے؟ اب ان کے سوالات کے جوابات کون دے، یہاں تو ہر طرف یہی مثالیں موجود ہیں۔ کل سے خواجہ محمد آصف کی بھی لندن میں بنائی گئی ایک ویڈیو زیرِ گردش ہے جس میں وہ اس قسم کے رویے کا شکار ہوئے ہیں، انہیں ننگی گالیاں تک دی گئی ہیں جب یہ رویے آ جائیں گے تو سیاسی گفتگو میں امن چین کہاں رہے گا، یہاں تو ایسے واقعات بھی ہو چکے ہیں سیاسی بحث کے دوران گولیاں چل گئیں اور زندگیاں ضائع ہو گئیں، سنجیدہ حلقے تو بہت پہلے سے خبردار کر رہے تھے، سیاسی اشرافیہ نے اگر اپنی اصلاح نہ کی اور ایک دوسرے کے نقطہ ء نظر کو برداشت کرنے کا رویہ اختیار نہ کیا تو پھر بات کئی حدیں پار کر جائے گی۔ آج ہم کہہ رہے ہیں سیاست میں غلاظت کیسے آ گئی ہے، گالم گلوچ اور دھینگا مشتی کیسے پروان چڑھی ہے مگر یہ نہیں سوچتے کہ انہی اسمبلیوں میں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا۔بات دست و گریبان سے بھی بہت آگے جاتی رہی۔ گالیاں اور کردارکشی تو ایک معمول بن گیا۔ جسمانی تشدد اور باقاعدہ دوسرے کے ڈیسک پر جاکے حملے سامنے کی باتیں ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں جو کچھ ہوتا رہا وہ بھی ڈھکا چھپا نہیں، جب اوپر کی سطح پر حالات ایسے ہوں تو ان کا اثر نیچے کیسے نہیں آئے گا۔ نیچے آئے تو اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوگا۔ تربیت تو اوپر سے ہوتی ہے۔ کیا میاں نوازشریف نے اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو کبھی روکا کہ وہ اشتعال انگیزی نہ پھیلائیں، کبھی انہوں نے اسمبلی کے اندر کردارکشی کرنے والے اپنے ممبران کی سرزنش کی۔ مسئلہ یہ ہے یہاں کوئی اچھی مثال موجود ہی نہیں اپنی پارٹی کے لیڈروں کو کھلی چھوٹ دے کر دوسری جماعت والوں کو حاجی ثناء اللہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ یہی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن تھیں، جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف اُبال نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوتی تھی۔ سڑکوں پر گھسیٹنے اور حرام کا مال پیٹ پھاڑ کر نکالنے کی باتیں بھی کی جاتی تھیں۔ پیپلزپارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو جب زندہ تھیں تو ان کی کردارکشی کیسے کیسے نہیں کی گئی، یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں سیاست کو ذاتی دشمنیوں تک لے جانے میں سبھی کا کردار ہے۔ حالانکہ سیاست اور جمہوریت کی سب سے پہلی اساس یہی ہے دوسرے کی بات سنی جائے، مدلل انداز میں جواب دیا جائے مگر نعرہ زن سیاست نے سب کچھ نگل لیا۔ آج یہ عالم ہے کہ اسمبلیوں کے اندر بھی ماحول گرم ہے اور باہر بھی تپش ہے۔ ہاں یہ اضافہ ضرور ہوا ہے کہ بیرون ملک سیاست ایک پرتشدد رنگ اختیار کر گئی ہے۔وہاں ہمارے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ملک کی بدنامی اور جگ ہنسائی کا باعث بھی ہے۔
بات بالکل سادہ ہے کہ جب آپ اوپر کی سطح پر تقسیم اتنی گہری کر دیں گے کہ ایک دوسرے کا نام تک لینا ممکن نہیں رہے گا تو عوام کی سطح پر ہم آہنگی کی توقع کیسے رکھی جا سکے گی، یہ دونوں مختلف کام ہیں ایک طرح سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے پبلک میں سیاسی ہم آہنگی کے لئے سیاسی قوتوں کے درمیان رابطے اور مذاکرات ہونے چاہئیں۔ ظاہر ہے اس کے لئے پہلی شرط یہ ہے سازگار ماحول پیدا کیا جائے۔ میاں نوازشریف کی باتیں درست ہیں مگرانہوں نے کبھی ملک میں جاری سیاسی کارکنوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک پر آواز نہیں اٹھائی۔گزشتہ دو اڑھائی برسوں میں سیاسی کارکنوں اور عوامی نمائندوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس نے بھی ماحول میں تلخی کو زیادہ کیا ہے۔ یہ سب کچھ ان کے کھاتے میں اس لئے پڑ گیا ہے کہ ان کی جماعت برسراقتدار ہے۔ شاید بلاول بھٹو زرداری یا آصف علی زرداری کے خلاف بیرون ملک ایسے واقعات پیش نہ آئیں جیسے شریف خاندان یا ان کی جماعت کے رہنماؤں کو درپیش ہیں۔ میں ایک اہم مثال سے بات واضح کرنا چاہتا ہوں سب کو معلوم ہے مولانا فضل الرحمن کے خلاف عمران خان کتنا بولتے تھے۔ انہیں ڈیزل کا خطاب دیتے ان کی زبان نہیں تھکتی تھی۔ان کے اس بیانیے کو تحریک انصاف کے کارکنان نے نیچے تک اپنا لیا اور انہیں جہاں موقع ملتا تھا، مولانا فضل الرحمن کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ نفرت کا یہ سلسلہ تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کے کارکنوں تک پھیل گیا تھا۔ ایک وقت تو ایسا بھی تھا جب یہ توقع کرنا بھی احمقانہ بات سمجھی جاتی تھی کہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف یہ مہم ختم ہو جائے گی مگر میں نے دیکھا جب عمران خان نے مولانا کے حوالے سے اپنا بیانیہ بدلا اور انہیں سیاسی مفاہمت کی دعوت دی تو خود مولانا کے لئے یہ مشکل ہو گیا اتنا بڑا یوٹرن کیسے لیں۔ اب یہ حالات ہیں کہ تحریک انصاف والے مولانا فضل الرحمن کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں وہ سب باتیں ہوا ہو گئیں جو جلسوں اور ریلیوں میں مولانا کے خلاف کی جاتی تھیں۔یہ ایک مثال اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ جب اعلیٰ سطح پر تہذیب و شائستگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اس کے اثرات نیچے تک مرتب ہوتے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت نے کبھی اس حقیقت کو پلے نہیں باندھا کہ سیاست اختلاف رائے کا نام ہے، نفرت یا دشمنیاں پیدا کرنے کا نہیں۔ میں دو روز پہلے دوست سے ملنے ایک محلے میں گیا تو وہاں چار جگہ لکھا ہوا تھا۔ ”سیاست پر بات نہ کریں، جھگڑے بڑھ جاتے ہیں“، حالانکہ سیاست پر بات ہونی چاہیے کہ اسی سے ملک میں شعور اور فکر و نظر پروان چڑھ سکتے ہیں۔