سموگ (Smog) آج پاکستان کا ایک لاعلاج مرض بن چکا ہے۔ ہر گزرنے والی سردیوں میں اس کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ مجھے یاد ہے اول اول سموگی دورانیہ زیادہ سے زیادہ دو اڑھائی ہفتوں تک رہتا تھا۔ اس کے بعد بارش ہو جاتی تھی اور اس کی شدت میں کمی آ جاتی تھی۔ حکومت اس سال سوچ رہی ہے کہ مصنوعی بارش کا انتظام کرے۔ گزشتہ برس بھی ایسا کیا گیا تھا لیکن یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بارش اس مرض کا کوئی کامیاب نسخہ نہیں۔ ستم یہ ہے کہ ہم خود اس مرض کو لانے والوں اور اس کی طوالت میں اضافہ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ میری نظر میں اس سموگ کی تین وجوہات ایسی ہیں جو اسے مرضِ مزمن بنا رہی ہیں۔
سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم نے درختوں کی کٹائی کا ایک طویل عرصے سے گویا ”ٹھیکہ“ لے رکھا ہے۔ ہمارے شمالی علاقوں میں چِیل اور بیار کے درختوں کے گھنے جنگل پائے جاتے تھے۔ اب ان کا رفتہ رفتہ صفایا ہوتا جا رہا ہے۔ عمران خان کی حکومت میں نئے درختوں کو لگانے اور پروان چڑھانے کا ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ اس پر کچھ کام بھی ہوا۔ سوات، کے پی اور پنجاب کے بعض علاقوں میں اس پر عمل شروع کیا گیا لیکن پبلک کی رضامندی اس میں شامل نہیں تھی اور آپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں وہ بیل کبھی منڈھے نہیں چڑھتی جس کو عوامی رضا مندی حاصل نہ ہو۔ آج بھی چوبی مارکیٹیں پنجاب کے مختلف شہروں میں چیل(یا چِیربیار) کے درختوں کی لکڑی سے بھری ہوئی ہیں۔ ان مارکیٹوں کے مالکان عموماً پشتو بولنے والے وہ لوگ ہیں جن کو ملک کے شمالی حصوں سے ان درختوں کے شہتیروں سے بھرے ٹرک پہنچائے جاتے ہیں۔
دوسرے ملکوں میں اس درخت کی لکڑی کی کھپت عام ہے لیکن وہ ملک ایک درخت کاٹتے ہیں اور اس کی جگہ پانچ درخت کاشت کر دیتے ہیں۔ ان کی کاشت اور کٹائی کے درمیان کئی برسوں کا گیپ ہے اور اس گیپ کو مدنظر رکھ کر ہی ان کی کٹائی کی جاتی ہے…… لیکن ایسا کوئی سسٹم ہم پاکستان میں لاگو نہیں کر سکتے۔ خدانے ہمیں وہ دوراندیشی ہی نہیں دی کہ اس قسم کے سسٹم کی پیروی کر سکیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ جہاں گھنے جنگل ہوتے تھے، وہاں اب چٹیل میدان بن چکے ہیں اور یہ درخت آکسیجن اور ہائیڈروجن کو جذب کرنے اور باہر نکالنے کا جو قدیم نظام رکھتے تھے وہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں یہ نظام چونکہ ختم ہوتا جا رہا ہے اس لئے سموگ کا علاج بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
اب پنجاب کے بہت سے شہر اس کی زد میں ہیں۔میڈیا میں ہم ان شہروں کے نام پڑھتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ لاہور اور ملتان کے علاوہ دوسرے شہر سال بسال سموگ کا گڑھ بنتے جا رہے ہیں، لیکن ہم ان امور پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔
سموگ کی دوسری وجہ شہری علاقوں کا پھیلاؤ ہے۔ جہاں شہریا قصبہ یا گاؤں ہوگا وہاں مکان بھی ہوں گے اور مکان اینٹ اور سیمنٹ سے بنتے ہیں۔ اینٹوں کے بھٹے تمام بڑے بڑے شہروں میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی چمنیوں سے جو دھواں خارج ہوتا ہے وہ موسم سرما میں منجمد ہو کر سموگ بن جاتا ہے۔آپ پاکستان کے کسی شہر کی آبادی کو دیکھ لیں۔ آج جو آبادی ایک لاکھ یا ایک کروڑ ہے وہ دس سال پہلے 50ہزار یا 50لاکھ تھی۔ ذرا سوچئے، اس بڑھتی ہوئی آبادی کا ذمہ دار کون ہے؟آج پاکستان کی آبادی اگر 26کروڑ ہے تو آنے والے دو برسوں میں 28،29 کروڑہو جائے گی، زیادہ گھر ہوں گے تو ان میں چولہے بھی زیادہ ہوں گے اور ان چولہوں میں شعلے اور دھواں بھی ہوگا جو سموگ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔
سموگ کی تیسری وجہ گاڑیوں کی بھرمار ہے۔ لاہور کے وہیکل رجسٹریشن کے آفس میں جا کر معلوم کریں کہ دس سال پہلے ملک میں کتنی کاریں، رکشے، موٹرسائیکل اور ٹریکٹر تھے اور آج ان کی تعداد کتنی ہو چکی ہے۔میں آپ کو اعداد و شمار میں الجھانا نہیں چاہتا۔ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آبادیاں اگر بڑھیں گی، اگر مکانات زیادہ تعداد میں بن جائیں گے تو کاریں اور موٹرسائیکل بھی اسی تناسب سے زیادہ تعداد میں ہوں گے۔
میں لاہور میں 1999ء میں آیا تھا۔ کینٹ ایریا میں جتنے سکول تھے اُن کے باہر سائیکل سٹینڈ ہوا کرتے تھے جو بعد میں موٹرسائیکل سٹینڈ بن گئے۔ آج دیکھتا ہوں تو وہاں ”کار سٹینڈ“ بن چکے ہیں۔ میرے بچے لاہور گرائمر سکول میں پڑھتے ہیں۔ آج وہاں کوئی موٹرسائیکل نظر نہیں آتا۔ سینکڑوں گاڑیاں پارک ہوتی ہیں جن میں میری اپنی گاڑی بھی شامل ہے۔ ان کے ایگزاسٹ سے دھواں تو نکلتا ہے، خواہ وہ سیاہ ہو یا سفید ہو……دھوئیں کی یہی سیاہی اور سفیدی سموگ کا باعث بنتی ہے۔کیا ہم ان گاڑیوں کو روک سکتے ہیں کہ یہاں آکر بچوں کو پِک یا ڈراپ نہ کریں؟……
سڑکوں پر موٹرسائیکلوں اور رکشاؤں کا دور دورہ ہے۔ اس کی اصل وجہ بڑھتی ہوئی انسانی آبادیاں ہیں۔ کسی بھی بڑے شہر کے مضافات آج سے دس بارہ برس پہلے چٹیل میدان ہوتے تھے لیکن آج وہاں سڑکوں اور گاڑیوں کا اژدہام رہتا ہے۔ کیا ہم نے ملک کی آبادی کی روک تھام کا کوئی پروگرام بنایا ہے؟ کیا کسی شہر میں نئی اضافی کالونیوں کی تعمیر پر پابندی لگائی گئی ہے؟ظاہر ہے آبادی بڑھے گی تو موٹرسائیکل اور کاریں بھی بڑھ جائیں گی۔ مکانات کی تعداد میں اضافہ ہوگا تو درختوں کی تعداد میں اسی تناسب سے کمی ہوتی جائے گی۔
سموگ کی ایک اور وجہ شاید ہم نے یہ بنا رکھی ہے کہ انڈین پنجاب میں کپاس کی ”چھڑیاں“ جلائی جاتی ہیں اور ان کا دھواں ہمارے پاکستانی پنجاب میں آ جاتا ہے۔ دھان کے چھلکے بھی جلائے جاتے ہیں جو دھوئیں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ پہلے نہیں ہوتا تھا؟ ہوتا تھا مگر اس کی مقدار اور تعداد کم ہوا کرتی تھی اور وجہ یہ تھی کہ کپاس اور دھان کی پروڈیوس بھی کم ہوتی تھی۔ کیا حکومتی سطح پر کسی نے سوچا ہے کہ اس ”مرض“ کا علاج کیا ہے؟ ہماری حکومتیں دوسرے بے شمار موضوعات پر دن رات ”دھواں“ اڑاتی رہتی ہیں لیکن وہ دھواں جو سموگ کا باعث بنتا ہے اس کا نوٹس بھی کیا کسی نے لیا ہے؟
القصہ،پاکستان میں سموگ ایک قاتل مرض بن چکا ہے۔ ہم شہر بساتے جا رہے ہیں اور جنگلات اجاڑتے چلے جا رہے ہیں۔ 1990ء میں پاکستان میں رجسٹر شدہ گاڑیوں کی تعداد 15لاکھ تھی جو اب 70لاکھ ہو گئی ہے۔ ہم ہر سال 70ہزار ایکڑ رقبے کو جنگلات سے خالی کررہے ہیں۔ سموگ میں جو نمی کی بوندیں ہوتی ہیں ان میں ایسے قاتل کیمیکل ہوتے ہیں جو گلے،پھیپھڑوں،آنکھوں اور انسانی جسم کے دیگر اعضائے رئیسہ میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر سال ہماری اموات میں (بعارضہء سموگ) اضافہ ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ باہر نکلیں تو ماسک پہن کر نکلیں ……ہم کب تک ماسک پہنتے رہیں گے؟
ہمارے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ ان میں تین ہفتوں کی چھٹیاں دے دی گئی ہیں۔ ابھی معلوم نہیں اور کتنی چھٹیاں درکار ہوں گی۔
محکمہء تعلیم کو اس تجویز پر بھی غور کرنا چاہیے کہ موسم گرما کی تعطیلات کو 3ماہ سے کم کرکے ڈیڑھ ماہ کر دیں اور سموگ کے ان ایام میں باقی ڈیڑھ ماہ کی تعطیلات کر دیا کریں …… لیکن کیا یہ اس مرض (سموگ) کا کوئی مستقل علاج ہے؟…… میرا خیال ہے ایسا نہیں ہے……جب تک پاکستان کی آبادی میں ٹھہراؤ نہیں آئے گا اس وقت تک سموگ جیسے آزار بڑھتے رہیں گے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ سموگ کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے ملکوں میں فضائی آلودگی کے سبب 30فیصد لوگ دل کے عارضوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور 20فیصد لوگ پھیپھڑوں کے امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔
سموگ کا روگ کوئی ایسا روگ نہیں کہ اس سے جلد چھٹکارا پانے کی کوئی امید لگائی جا سکے۔ لاہور اور ملتان (اور نئی دہلی بھی)دنیا بھر میں سب سے زیادہ فضائی آلودگی والے شہر بن چکے ہیں اور اس آلودگی میں سال بسال اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ برس جن شہروں میں شرح آلودگی نہ ہونے کے برابر تھی ان میں اس سال فضائی آلودگی کا لیول خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ایک ایسا وقت آ جائے کہ سموگ ایک متعدی بیماری بن جائے۔ آج اگر یہ مرض لا علاج ہے تو ہمیں اس پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ہم اپنی نئی نسل کو، کہیں یہ مرض مستقل طور پر تو منتقل نہیں کر رہے؟