مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:62
وادی مرگ
دن چڑھ آیا تھا۔ 9 بجے سے بھی زیادہ کا وقت ہوگیا تھا مگر احمد ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔ میں ناشتہ کرکے ہوٹل کی لابی میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا آج ہم نے پہلی بار دریائے نیل عبور کرکے اس پار مغرب میں واقع مرُدوں کی وادی میں جانا تھا۔ اسی طرف ہی پہاڑوں میں بنے ہوئے بادشاہوں اور ملکاؤں کے مدفن بھی تھے۔ جن کے لئے علیٰحدہ علیٰحدہ علاقے مخصوص کر دیئے گئے تھے۔ جس علاقے میں بادشاہوں کے مقابر تھے ان کو بادشاہوں کی وادی یعنی Valley of the Kings کہتے تھے اور اسی طرح دوسری طرف ملکاؤں کے مدفنوں والے علاقے کو Valley of the Queen کا نام دیا گیا۔ لیکن ہمیں آج ادھر نہیں جانا تھا۔ آج ہمیں فرعون بادشاہوں اور ملکاؤں کے مدفنوں سے تھوڑا ہٹ کر ان مندروں کا رخ کرنا تھا جہاں ان کو مرنے کے بعد آخری رسومات کے لئے لے جایا جاتا اور پھر وہیں ان کی یاد میں ایک مستقل مندر کی تعمیر کر دی جاتی۔ اس یادگاری مندر پر ان کی موت کے بعد بھی مدتوں تک عبادتیں ہوتی رہتی تھیں۔
ویسے تو وہاں اس طرح کے بے شمار مندر تھے جن میں سے اکثر تو اب وقت کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوچکے ہیں اور بہت کم سیاح اس طرف کا رخ کرتے ہیں، تاہم دو مندر ایسے ہیں جو ابھی تک بہت اچھی حالت میں موجود ہیں اور اپنے اصلی رعب اور دبدبے کے ساتھ قائم ہیں۔ آج ہم ان کو دیکھنے اور پرکھنے جا رہے تھے۔
کچھ دیر بعد احمد آگیا تو ہم دریائے نیل کے کنارے ٹہلتے ہوئے کشتی گھاٹ کی طرف پہنچ گئے اور وہاں سے ایک بڑی موٹر بوٹ پر سوار ہو کر دریائے نیل کے دوسرے کنارے کی طرف بڑھنے لگے۔ اس وقت دریا پر دوسری طرف جانے کے لئے ایک پل تو موجودتھا لیکن وہ تھوڑے فاصلے پر تھا۔ اس طرف سے اگر ہم گاڑی یا بس کے ذریعے ان مندروں کی طرف جاتے تو باآسانی آدھے گھنٹے میں وہاں پہنچ سکتے تھے لیکن دریائے نیل کے نیلگوں پانیوں میں کشتی رانی کا ایک اپنا ہی لطف تھا، جو بڑا ہی خوبصورت اور خوابناک سا منظر پیش کرتا ہے۔ اس لئے ہم نے گاڑی کے بجائے کشتی کے سفرکو ترجیح دی۔
کشتی میں اور بھی بہت سارے سیاح اپنے اپنے گائیڈوں کے ساتھ ہمارے ہم سفر تھے۔ دریائے نیل کی خوبصورتی اس وقت انتہا پر تھی۔ یہاں دریا اتنا چوڑا تھا کہ دوسرا کنارہ بھی بمشکل ہی نظر آتا تھا۔ دریا میں سفر کے دوران کئی سیاحتی بجرے ہمارے بالکل قریب سے گزرے، جن کے عرشوں پر کھڑے ہوئے مسافر دور بین لگائے ہوئے دونوں طرف کے ساحلوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ جہاں ایک طرف جیتے جاگتے فرعونوں کا عظیم الشان شہر تھبیس تھا جس میں کرناک مندر کے کھنڈرات واضح طور پر نظر آ رہے تھے۔ دوسری طرف کے پہاڑ وں میں انہی مردہ بادشاہوں اور ملکاؤں کے ابدی ٹھکانے بنے ہوئے تھے، اور بیچ میں دریائے نیل پورے کروفر سے بہہ رہا تھا۔
ہماری کشتی میں بھی کچھ منچلے بزرگ سیاح نقشے اور سیاحتی کتابچے کھولے بیٹھے تھے اور غور سے اس کا مطالعہ کرکے آپس میں بحث و مباحثہ کر رہے تھے تاکہ وہ وہاں پہنچنے سے پہلے اس علاقے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکیں۔ ان کا خیال تھا کہ آگے چل کر ان کا گائیڈ جو یہاں کے بارے میں قصے کہانیاں بیان کرے گا تو وہ آسانی سے اس کے تانے بانے بن سکیں گے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں