واہگہ بارڈر کے اُس پار
ایک افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ بڑھاپے کا اس کے سوا کوئی اور لطف نہیں ہے کہ انسان اپنے بچوںکے بچوںکے ساتھ کھیل کر دل بہلا سکتا ہے، تاہم جب سے مجھے پتا چلا ہے کہ پاکستان اور انڈیا نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک دوسرے ملک کے معمر افراد کے لئے فوری طور ویزے کا حصول ممکن بنایا جائے گا تو احساس ہوا کہ بڑھاپا اتنا بھی تہی داماں نہیںہوتا۔ یہ سوچ بھی دل میں پیداہوئی کہ سرحد کے دونوں طرف سیاست دان بھی انسانی جذبات رکھتے ہیں۔ چشم ِ تصور نے دیکھا کہ مَیں کراچی ائیر پورٹ پر ہوں اور کوئی ایک گھنٹے بعد ممبئی ائیر پورٹ پر مسکراتے چہرے میرا استقبال کررہے ہیں.... یا پھر اگر دہلی یاترا کا ارادہ ہے تو پہلے لاہور کا ٹکٹ لیا جائے اور پھر وہی ایک گھنٹے بعد دہلی ہوں گے، جہاں ویک اینڈ گزارنا ایک ٹریٹ سے کم نہیںہوتا۔
ان دل خوش کن تصورات کے جلو میں مَیں یہ بھول گیا تھا کہ جنوبی ایشیا کے بابو حضرات اور سیاست دان ایک جیسی کم ظرف ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں، چاہے اُن کا تعلق کسی بھی ملک سے کیوں نہ ہو۔ پتا چلا کہ سینئر شہریوں کو فوری ویزا صرف اسی صورت میں ملے گا، جب وہ لاہور اور امرتسر کے درمیان واہگہ بارڈر پر پہنچیں گے۔ اس ”حسن ِ انتظام “ کا صاف مطلب یہ تھا کہ اگر مَیں ممبئی جانا چاہتا ہوں تو پہلے جہاز کے ذریعے لاہور آﺅں، پھر ٹیکسی لے کر واہگہ بارڈر پر پہنچوں اور پیدل چلتا ہوا بارڈر کو عبور کروں۔ پھر ایک اور ٹیکسی لے کر امرتسر پہنچوں۔ وہاںسے جہاز یا ٹرین کے ذریعے دہلی جاﺅں۔ وہاں سے ممبئی کے لئے پھر جہاز لوں۔ اس سارے سفر میں کم از کم ایک دن لگ جاتا ہے، حالانکہ کراچی سے ممبئی ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں پہنچا جا سکتا ہے۔ کرایوں کی مد میں اخراجات بھی کہیں زیادہ اٹھتے ہیں۔
کیا معمر افراد کو اتنے طویل چکر سے گزارنے کے پیچھے کوئی منطق یا معقولیت ہے؟.... مجھے تو نظر نہیں آتی۔ اگر مَیں ہوائی جہاز کے ذریعے بھارت جارہاہوں تو اس میں سیکیورٹی کو کیا خطرہ لا حق ہو سکتا ہے ؟اگر اس کارروائی کا مقصد سرحد کے آرپار افراد کا آپس میں میل جول آسان بنانا تھاتو اس طویل چکر سے تو یہ مقصد فوت ہو رہا ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ عدم اعتماد اور پائے جانے والے شکوک و شبہات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے، جس سے آپس میں اختلافات اور دشمنی کے خاتمے کے لئے پیدا ہونے والے امکانات کو معدوم کیا جاسکے۔ کبھی بھول چوک سے بھی دوستی کا موقع پیداہوجائے تو ان کو گنوانے کے لئے ان کی پھرتیاں قابل ِ دید ہوتی ہیں۔
اپنی تشویش کا اظہار کرنے کے بعد ، تاہم مجھے خوشی ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان برف پگھل رہی ہے۔ چار سال پہلے ممبئی حملوںکے بعد سے جو تعلقات خاصے کشیدہ تھے، اب گفت و شنید کا سلسلہ چل نکلا ہے اور وفود کا تبادلہ بھی ہو رہا ہے یہ ایک حوصلہ افزا، پیش رفت ہے،اگرچہ قدرے سست ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ان کے درمیان ابھی دوستانہ روابط قائم ہونے میں خاصی دیر لگے گی اور ان کو ایک دوسرے سے رعایتیں لینے کے لئے کافی اقدامات کرنا ہوںگے، بالکل جس طرح ایک دندان ساز ایک دکھتے ہوئے، مگر مضبوطی سے جمے ہوئے دانت کو نکالنے سے پہلے اُسے ہلاکر نرم کرتا ہے۔ اب تک کئی اعلانات تو کئے جاچکے ہیں، مگر ان کو حقیقت کا جامہ پہنایا جانا باقی ہے۔ دونوں ممالک کی وزارتیں اور ان کے محکمے کارروائی کو سست کرنے میں خاصی چابکدستی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ردِ عمل کے منتظر ہیں، کوئی بھی بارش کا پہلا قطرہ بننے کا رسک نہیں لینا چاہتا۔
اس ذہنیت پر قابو پانے کے لئے ابھی عرصہ درکار ہے۔ اس دوران وقت گزر رہا ہے، دنیا امکانات کے نئے آفاق تلاش کررہی ہے، جبکہ برِ صغیر نے ابھی ساٹھ سالہ محاذ آرائی کی زنجیروںکو توڑنا ہے ۔ اس دوران سرحد کے دونوں طرف عام لوگ اپنے رہنماﺅں کی ہٹ دھرمی اور اہم فیصلے وقت پر کرنے کی عدم صلاحیت کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ دنیا کے ترقی پسند لوگ حیرت سے دیکھتے ہیں کہ یہ عجیب ممالک ہیں جو ابھی تک ماضی کے دکھوں کا مداوا بھی نہیں کرسکے۔ کیا گزرتے ہوئے لمحات ، جو اب عشروں میں تبدیل ہوچکے ہیں، ان کے زخموں پر مرہم رکھنے میںناکام رہے ہیں ؟
جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو اس پر پاکستان عالمی حمایت سے محروم ہو چکا ہے اور اب تو ہمارے دوست بھی ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہم اس کا خیال دل سے نکا ل دیں۔ ہمارے دفاعی ادارے اب بھارت کی بجائے ایک اور مہیب خطرے سے نمٹ رہے ہیں، مگر یہ خطرہ مشرقی نہیں، بلکہ شمال مغربی سرحد پر ہے۔ پاک فوج کی اس ناگزیر ”مصروفیت “ نے انڈیا کو موقع دیا ہے کہ وہ کشمیر پر عسکری گرفت مضبوط کر لے، مگر ایسا کرنے سے اسے اخلاقی اور انسانی المیے کی صورت میں زک اٹھانا پڑرہی ہے۔ اگر ان حقائق کو مد ِ نظر رکھیں تو یہ سوچ ذہن میں پیداہوتی ہے کہ اب ان دونوں ممالک کو اپنی پالیسیوں پر نظر ِ ثانی کی اشد ضرورت ہے، تاکہ معقولیت کا دامن تھام کر کسی ایسے حل کی طرف بڑھ سکیں، جو طرفین کے لئے قابل ِ قبول ہو۔
جنرل (ر) پرویز مشرف سے بہت غلطیاںسرزد ہوئیں، مگر اُنہوںنے اس مسئلے کے حل کے لئے ایک موثر قدم ضرور اٹھایا۔ اُنہوںنے کشمیر پر ایک نئی اور غیر روایتی سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ اس تکلیف دہ مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل کیا جا سکے۔ان سے پہلے دونوں وزرائے اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف صاحب نے بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ راجیو گاندھی اور اٹل بہاری واجپائی نے بھی اپنے اپنے ہم منصبوں کے مثبت اقدامات کا جواب دینے کی پوری کوشش کی، مگر دونوں ممالک میں جنگجو نظریات رکھنے والے مقتدر حلقوںنے ان کی پیش نہ چلنے دی یہاںتک کہ پرویز مشرف کی کارگل مہم جوئی نے تمام کاوشوںپر پانی پھیر دیا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوںسے سبق سیکھیں ، نہ کہ ان کو دہراکر اپنے زخموںکو ہرا کرتے رہیں۔ پاکستان میں جمہوری حکمرانوںکی کاوشوں کو دفاعی اداروں اور انتہا پسند تنظیموں نے سبوتاژ کر دیا، مگر آج کے معروضی حالات میں جی ایچ کیو میں یہ حقیقت شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ ہماری بیمار معیشت مسلسل جنگی اخراجات برداشت کرنے کی متحمل نہیںہے اور نہ ہی ہم ایک بڑے ملک کے مقابلے میں اسلحے کی دوڑ میں شریک ہونے کی حماقت کرسکتے ہیں۔ اب تک ہم اس حقیقت کو بھی پا چکے ہیں کہ ہماری معیشت انڈیا کے ساتھ تجارت کرنے سے بہتری کی طرف گامزن ہوسکتی ہے۔ اگرچہ اب بھی پاکستان کے کچھ کاروباری حلقے بھارت کے ساتھ تجارت پر تحفظات رکھتے ہیں اور ممکن ہے کہ خدشات وقتی طور پر درست بھی ہوں مگر اس میں کوئی مبالغہ آرائی نہیںہے کہ اس سے دونوں ممالک کا فائدہ ہوگا۔
اس وقت پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے سے کمزور ہے۔ اس ”کمزوری “ سے ہماری برآمدات بڑھ رہی ہیں۔ خوش قسمتی سے آج ہماری قومی قیادت نے، جیسا کہ صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف، جوکہ ملک کی دوبڑی جماعتوںکے قائدین ہیں، ایک سے زیادہ مواقع پر اس امر کا برملا اظہار کیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے حق میں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ طرفین نے کسی خاموش معاہدے کے تحت یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ کشمیر کو پس ِ پشت ڈال کر فی الحال دیگر معاملات میں قدم آگے بڑھائیں گے۔ انڈیا بہت دیر سے یہی بات کہتا چلا آ رہا تھا، مگر ہم جذبات کے بگولوںپر سوار تھے ۔ آج مجھے خوشی ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ ایسا کرنا ناگزیر ہے۔
تاہم زیادہ خوش فہمی اچھی نہیںہوتی، خاص طور پر جب برِ صغیر کی بیوروکریسی کی کارکردگی پر نگاہ ڈالیں تو لگتا ہے کہ سب اچھا نہیں ہے۔ دونوں ممالک کے سفارت کاروں کی تربیت کا یہ حصہ رہا ہے کہ جب ایک دوسرے کے سامنے میز پر بیٹھے ہوں تو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ کہیں کوئی سمجھوتہ ہونے نہ پائے۔ ہر مسئلے کا حل ایک سادہ سی ” نہیں “ میںہے اور اسی سے ساری پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرے دوست مسٹر طارق عزیز ، جو جنرل(ر) پرویز مشرف کے سیکیورٹی ایڈوائزر تھے، انڈیا کے ساتھ بیک چینل سفارتی روابط بڑھاتے ہوئے روایتی سفارت کاروں کو اس کی پیش رفت کی بھنک بھی نہیں پڑنے دیتے تھے۔ اب اگرچہ ہم بہتری کی امید لگائے ہوئے ہیں، مگر ہمیں اپنی توقعات کا دائرہ معروضی حقائق اور مشکلات سے آگے نہیں بڑھانا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے آغاز ہو تو بڑی توقعات بھی پوری ہو جائیںگی بھارتی فلمیں، موسیقی اور سبزیاں مزہ دیتی ہیں۔ اب اگر معمر افراد اپنے قدموں پر چل کر واہگہ بارڈر پارکرتے دکھائی دیں گے تو چلیں کچھ روابط پیدا ہوتے ضرور نظر آئیںگے۔
مصنف، نامور کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں ،جن کے کالم ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔