اندلس.... کلام اقبال کے آئینے میں(5)

اندلس.... کلام اقبال کے آئینے میں(5)
اندلس.... کلام اقبال کے آئینے میں(5)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اقرطبہ کے ذکر میں اقبال کے یہاں جو عقیدت پائی جاتی ہے، یہ محض شاعرانہ جذباتی وابستگی نہیں۔ عبدالرحمن الداخل اور اس کے جانشینوں نے اندلس کو بالعموم اور قرطبہ کو بالخصوص جو ترقی دی وہ تاریخِ ہسپانیہ کا روشن ترین باب ہے۔ اقبال یا مشرقی مو¿رخ تو اس شاندار تاریخ کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، فلپ کے۔ حتی قرطبہ کے بارے میں لکھتا ہے:
 It enjoyed milis of paved streets illuminated by lights from bordering houses, whereas, "seven hundred years after this time there was not so much as one public lamp in London" and in Paris centuries subsequently, whoever stepped over his threshold on a rainy day stepped upto his ankles in mud."When the University of Oxford still looked upon bathing as a heathen custom, generations of Cordova scientists has been enjoying baths in luxurious establishments. The fame of Moslem capital penetrated distant Germany where a Sxxon unn, styled it "the jewel of the world"
مسلمانوں کے عہدِ حکومت میں قرطبہ کی آبادی دس لاکھ تھی۔ یہ شہر پہاڑوں کے دامن میں ایک خوبصورت دریا........ وادی الکبیر (Guadalquiuer) کے کنارے چوبیس میل لمبا اور چھ میل چوڑا آباد تھا۔ قرطبہ کی سڑکیں نہایت صاف و پختہ، سیدھی اور کشادہ تھیں۔ مکانات عموماً سنگ مرمر کے بنے ہوئے اور انتہائی خوبصورت تھے۔ روشنی اور صفائی کا انتظام نہایت اعلیٰ پائے کا تھا۔ قرطبہ کے بازار میں اگر رات کے وقت کوئی شخص بخطِ مستقیم سفر کرتا تو وہ بازار کے چراغوں کی روشنی میں دس میل تک چل سکتا تھا۔ پانی کی نکاسی کی موریاں پختہ بنی ہوئی تھیں اور صفائی کے لئے ایک محکمہ قائم تھا جو ہمہ وقت شہر کی صفائی کی نگرانی میں مصروف رہتا تھا۔ شہر میں سینکڑوں مدارس، اسی ہزار چار سو دکانیں، ایک لاکھ تیرہ ہزار مکان، سات سو مسجدیں، نو سو حمام اور چار ہزار تین سو گودام تھے۔ امرا، وزراءاور خلیفہ کے محلات اس تعداد میں شامل نہیں، مسافروں اور سوداگروں کے لئے بڑی کارواں سرائیں موجود تھیں۔ دستر خوان اور ٹائیلٹ کی جو نایاب چیزیں اس شہر میں عام ملتی تھیں، یورپ کے لئے ان کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔
 شنگرفی رنگ کے ایک آٹھ میل لمبے نل کے ذریعے ایک پہاڑ پر سے پانی صاف ہو کر شہر کے لئے آتا تھا۔ شہر کے چوکوں، محلات کے دروازوں اور مسجدوں میں فوارے لگے ہوئے تھے جو شیریا مگر مچھ کی شکل میں تانبے کے بنے ہوئے تھے۔ شہر کے اندر بھی جا بجا نفیس اور دلکشا باغ تھے اور نواح شہر میں تو ایسے جنت نظیر باغوں کی کثرت تھی۔ شہر کے مضافات میں اکیس خوبصورت بستیاں تھیں جن میں شہریوں کی عشرت گاہیں بنی ہوئی تھیں اور ان کے ساتھ باغات لگے ہوئے تھے جہاں کے خوشبودار پھولوں کی مہک دور سے آتی تھی۔ شہر کے ہر دروازے سے باہر ایک نہ ایک سڑک کسی دوسرے شہر کی طرف جاتی تھی۔ سڑکوں کے کناروں پر پھلواریاں تھیں۔ محلات کے اندر باغوں کا نقشہ بدلنے کے لئے کہیں کہیں مصنوعی جھیلیں بنی ہوئی تھیں جن میں چاندی کی بنی ہوئی بطخیں اور مرغابیاں تیرتی رہتی تھیں۔ نہروں میں سنہری اور روپہیلی مچھلیاں تیرتی پھرتی تھیں۔
سلطان کا محل قصرِ زہر انامی تھا جس کی آرائش ملک ملک کے بادشاہوں کے تحفوں سے بھی کئی گئی تھی۔ قصر زہرا سنگ مرمر کے اونچے چبوترے پر بنا ہوا تھا اور اس کا قبہ قیمتی پتھروں کا تھا جن میں موتی اور ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ سونے اور چاندی کی اینٹیں لگی ہوئی تھیں۔ خوشبودار لکڑی کے دروازوں میں ہاتھی دانت، آبنوس اور سونے جواہرات سے مرصع کاری کی گئی تھی۔ قصر کے وسط میں سنگ سماق کا ایک حوض تھا جس میں پارہ بھرا ہوا تھا اور جب اس پر سورج کی شعاعیں پڑتیں تو چاروں طرف ان کے انعکاس سے چکا چوند ہو جاتا تھا۔ غرض اس دور میں دنیا کا کوئی شہر اپنے حسن، نفاست، آبادی اور ترقی کے اعتبار سے قرطبہ کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔ قرطبہ کی اسی عظمت کے باعث علامہ اقبال نے اسے ”دیدہ¿ مسلم کا نور“ قرار دیا ہے۔
سرزمینِ قرطبہ سے متعلق علامہ اقبال نے جس حقیقت کو شعر کے قالب میں ڈھالا ہے، اسے سمجھنے کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے پہلے اندلس کی حالت پر ایک نظر ڈالی جائے اور اس کے لئے خود اہل مغرب کے بیانات ہی زیادہ مناسب رہیں گے۔ مسلمانوں سے پہلے اندلس اور یورپ کی عام حالت سکاٹ کے الفاظ میں یہ تھی:
”یورپ کا محل ان تمام عیوب کا مظہر بنا ہوا تھا جو دنیا کے نہایت شرمناک شاہی درباروں میں عموماً ہوا کرتے ہیں۔ عوام الناس نے (پادریوں کی) تقلید کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بے دینی اور بد چلنی اس قدر عام ہوئی کہ سوسائٹی کا خمیر بگڑ جانے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ علم تاریخ کا کوئی شعبہ انسانی دغا و فریب اور انسانی کمزوری کی ایک بھی ایسی مثال پیش نہیں کر سکتا جیسے کہ پوپوں کی حرص و آز، سازشوں اور عیوب کے صحیح قصے ہیں۔ چونکہ پادریوں اور حکامِ کلیسا کے اخلاق خراب تھے اور عام طور پر سب کا شہوات کی طرف میلان تھا، اس لئے نظامِ کلیسا ٹھیک طور پر قائم نہیں رہ سکا تھا، بلکہ اس نظام کے لئے مہلک تھا۔ پادری اور راہبات اپنی دینی حیثیت کی پروا نہ کرتے تھے۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ دونوں (پادری اور راہبات) فواحش ہیں۔ ایک دوسرے سے بڑھ جانا چاہتے ہیں۔ کلیسائی خدام کی تعداد، ان کی دولت اور ان کا اثر بہت ہی زیادہ تھا۔ تیرہویں صدی کے آخر میں چھ سو دیرو خانقاہ انگلستان میں تھے، دوہزار تین سو سینتیس فرانس میں اور پندرہ سو یورپ کے اور باقی ملکوں میں۔ ان میں سے اکثر ایسے تھے جن میں ہزار ہزار راہب رہا کرتے تھے۔ قصبے، نہایت سیر حاصل اراضی، چراگاہیں اور جنگلات ان کے قبضے میں تھے۔ مزارعین اور غلاموں کا ایک گروہ کا گروہ ان زمینوں کو کاشت کرتاتھا۔ محاصل کا سب سے بڑا حصہ نقدی کی صورت میں ان مقدسین کے خزانے میں جاتا تھا یا جنس کی صورت میں ان کے گودام بھرے جاتے تھے۔
یورپ کے تمام آدمی بلا استثنائے درجہ و رتبہ و ذرائع پورے پورے جانور معلوم ہوتے تھے۔ گندگی دین داری کا معیار تھا۔ اپنے روحانی مقتداﺅں کی تقلید میں لوگوں نے اپنے جسموں کی صفائی سے بے پروائی برتی....گندہ رہنا مسیحیت اور دین قویم کی سب سے بڑی علامت بن گئی۔ گندگی تمام ملک کی عادتِ ثانیہ ہو گئی۔ بیشتر پادری نہ لکھ سکتے تھے، نہ پڑھ سکتے تھے۔ دعائیں انہوں نے بر زبان یاد کر رکھی تھیں اور طوطوں کی طرح نماز پڑھا دیتے تھے۔ نہ پادری جانتے تھے وہ کیا کہہ رہے ہیں اور نہ مقتدی سمجھتے تھے کہ وہ کیا سن رہے ہیں۔
یہ تو یورپ کی بالعموم حالت تھی۔ اندلس کے بارے میں سکاٹ نے لکھا ہے:”سپین میں آبادی کا تناسب سات آدمیوں میں ایک پادری تھا، لیکن مسیحی سپین کی پچاس فی صد زمین ان کے قبضے میں تھی۔ غلاموں کی دو بڑی قسمیں تھیں جو قانون کی کج مج زبان اور پیچدار اصطلاح کے موافق غلامِ اسفل اور غلامِ اعلیٰ کہلاتے تھے۔ ان دونوں پر جاگیرداروں کو کسی کی جوابدہی کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ مقدم الذکر تو جاگیر دار کی ذاتِ خاص سے وابستہ تھے اور جائیدادِ منقولہ کی طرح سے ہر وقت فروخت یا کسی اور طرح منتقل کئے جا سکتے تھے۔ موخر الذکر کا تعلق اراضی سے تھا اور وہ کسی طرح اس سے جدا نہ ہو سکتے تھے، لیکن بہرحال یہ غریب باربردار جانوروں کی فہرست میں شامل تھے اور ان کی ان ہی جیسی قدرو قیمت تھی۔ ان کو وہ تمام سختیاں اٹھانی پڑتی تھیں، جو طمع اور خوئے بد اختراع کر سکتی تھی۔ صرف یہی نہ تھا کہ وہ اپنے جاگیرداروں کے جبر و ظلم کو سہتے تھے ،بلکہ ان پر کچھ پابندیاں بھی تھیں ،جن کو اسی زمانے کے لوگ گوارا کر سکتے تھے کہ نہ عزت و حرمت کا خیال تھا، نہ انصاف و عدل کا، نہ ننگ و ناموس کا۔ بے رحم جاگیردار اپنی انانیت نفس کی وجہ سے ان سے رات دن برابر کام لیا کرتے تھے اور جہاں جانور باندھتے تھے وہیں ان کو ڈالے رکھتے تھے اور ان پر، ان کا اور ان کے آقا کا نام کھدا رہتا تھا.... بے کسی اور جانکاہی کی کوئی مثال اور انسانی ظلم و ستم کی کوئی افسوس ناک نظیر دنیا بھر میں ایسی نہیں ملتی جیسی کہ قرونِ متوسط کے ان غلامان اعلیٰ کی تھی“۔ (جاری ہے)    

مزید :

کالم -