برطانیہ ،انتقامی ،غیر اخلاقی تصاویر یا ویڈیوز پر قید ہو سکتی ہے،نئے قانون میں انتباہ

برطانیہ ،انتقامی ،غیر اخلاقی تصاویر یا ویڈیوز پر قید ہو سکتی ہے،نئے قانون ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لندن(بیورورپورٹ)برطانیہ کے ایک نئے قانون میں واضح کیا گیا ہے کہ جو لوگ اپنی سابقہ ساتھیوں کی عریاں تصاویر یا وڈیوز انٹرنیٹ پر لگائیں گے ان کو دو سال تک قید ہو سکتی ہے۔ اس جرم کو ’ریوینج ' پورن‘ یا ’انتقاماً عریاں تصاویر تقسیم کرنا‘ کہا جا رہا ہے۔برطانیہ کے ایک نئے قانون کے مطابق نئے فوجداری انصاف اور عدالتوں نے اس جرم کے ساتھ نمٹنے کے لیے اپنے قوانین میں ترامیم کر دی ہیں۔جسٹس سیکرٹری کرس گریلنگ نے کہا: ’اس گھناو¿نے جرم کے متاثرین کو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ کسی بھی قسم کے ذریعے سے تقسیم ہونے والی تصاویر بھی قابلِ جرم ہے۔کرس نے کہا کہ ہمیں یقین نہیں آتا کہ دنیا میں ایسے شخص بھی ہیں جو اپنی سابقہ ساتھیوں کی ذاتی تصاویر ان کی اجازت کے بغیر اتنے ظالمانہ انداز سے تقسیم کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ حکام ’وہ سب کچھ کریں گے جن سے مجرم قانون کی گرفت میں آسکیں۔اس لیے ہم قوانین کو ہی بدل رہے ہیں۔ تاکہ ان لوگوں کو بالکل واضح طریقے سے بتا دیا جائے کہ اگر وہ ایسی حرکتیں کریں گے تو انھیں قید ہو سکتی ہے۔‘اب عریاں تصاویر یا وڈیوز لگانے والوں کو براہ راست پولیس میں رپورٹ کیا جا سکتا ہے۔
یہ ترامیم فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر سوشل نیٹ ورکس پر تقسیم ہونے والی تصاویر پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ جو لوگ ٹیکسٹ میسج کے ذریعے بھی عریاں تصاویر تقسیم کریں گے ان کو بھی قانون کی گرفت میں لے لیا جائے گا۔چیرٹی ’وکٹم سپورٹ‘ کے اسسٹنٹ چیف ایگزیکٹو ایڈم پیمبرٹن نے کہا:’اس قسم کے رویے متاثرین کے لیے انتہائی پریشانی کا سبب ہیں اور انھیں شدید نفسیاتی نقصان پہنچا رہے ہیں۔متاثرین کو اپنی تصاویر انٹرنیٹ سے ہٹوانے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر ویب سائٹس برطانیہ سے باہر کے ممالک میں ہوسٹ کی جاتی ہیں اور اس لیے اکثر متاثرین کی درخواستیں نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔کئی دفعہ تو اپنی تصاویر ہٹوانے کی درخواست بھیجنا ان تصاویر کو اور زیادہ توجہ ملنے کا سبب بن جاتا ہے۔انگلینڈ اور ویلز کی آٹھ پولیس فورسز کی طرف سے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ڈھائی برسوں میں عریاں تصاویر تقسیم کیے جانے کے 149 الزامات سامنے آئے ہیں۔متاثرین زیادہ تر خواتین تھیں لیکن صرف چھ موقعوں پر پولیس نے کارروائی کی۔کیونکہ کوئی مخصوص قانون نھیں ہے اس لیے کچھ خواتین نے تصاویر ہٹوانے کے لیے ایسے طریقے بھی اپنائے جو قانون کے گرد گھومتے ہیں جیسا کہ اشاعت کے حقوق سے متعلق قوانین یا ’کاپی رائٹ‘ کے قوانین۔اگر کسی نے اپنی عریاں تصاویر ایک ’سیلفی‘ کے طور پر لی ہے، تو ان تصاویر کی اشاعت کا حق صرف اس کا اپنا ہوتا ہے۔نئے قانون میں ’ریوینج پورن‘ کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ کوئی بھی ’فوٹوگرافس یا فلمیں جن میں لوگ جنسی عمل کرتے دکھائی دیں یا انھیں جنسی طریقے سے پیش کیا گیا ہو یا ان کے جنسی اعضا نظر آ رہے ہوں، یا جہاں وہ چیزوں چیزیں دکھائی جا رہی ہوں جو پبلک میں دکھائی نہیں دیتیں۔‘

مزید :

عالمی منظر -