موجودہ عدالتی نظام میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے :وکلاء

موجودہ عدالتی نظام میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے :وکلاء

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

راولپنڈی(فورم رپورٹ:۔ چوہدری نثار ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کا حکومت بارے بیان حقائق پر مبنی ہے ، فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ختم ہونا چاہیے،مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے کرپشن کو تحفظ مل رہا ہے، عدلیہ کرپٹ نہیں ججز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے بار اور بنچ کے درمیان تعلقات دوستانہ ہونے چاہیں عدالتی بائیکاٹ سے وکلاء کے بارے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، سول ججز سے لیکر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تقرری کا طریقہ کار ٹھیک نہیں ہے،سول ججز کم ازکم ایک سال کی ٹریننگ دے کر بھرتی کیا جائے راولپنڈی میں منڈی بہاو الدین سے تعلق رکھنے والے ججوں کی تعداد زیادہ ہے جس سے کئی سوال جنم لیتے ہیں موجودہ عدالتی نظام میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے،عدلیہ میں بے رحمانہ احتساب وقت کی ضرورت ہے،سپریم کورٹ میں 18سال کے بعد فیصلہ آنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے،اِن خیالات کا اظہار راولپنڈی کے معروف وکلاء صادق مبین خان،نوید زمرد خان،محمد علی حسین ایڈووکیٹ،میاں نذر الاسلام ایڈووکیٹ، اسد عباسی ایڈووکیٹ،خواجہ ساجد ایڈووکیٹ،ملک ارسلان علی،سردار وقار ایڈووکیٹ،حسین عباسی نے اِن خیالات کا اظہار روزنامہ پاکستان فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا، اسد عباسی ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور ساری ذمہ داری سیاستدانوں پر نہیں ڈالنی چاہیے،موجودہ عدالتی نظام اصلاحات کی ضرورت ہے،مقدمات کی طوالت سرکاری اور پولیس کا عوام کے ساتھ نا مناسب رویہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے،سول جج سے لیکر اعلیٰ عدلیہ کے ججز تک کی تقرری کا طریقہ کار ٹھیک نہیں ہے سول ججز کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے،صادق مبین خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ختم ہونا چاہیے،مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے کرپشن کو تحفظ مل رہا ہے،انہوں نے کہا کہ موروثی سیاست پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہیے،عمران خان کے احتجاج کی وجہ سے حکومت عوام پر مہنگائی کا بوجھ نہیں ڈال رہی انہوں نے کہا کہ اگر یہ احتجاج نہ ہوتا تو آج ملک کے اندر پٹرولیم مصنوعات عالمی منڈی تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود پاکستان میں قیمتوں میں کمی نہ ہوتی،پرامن احتجاج ہر سیاسی جماعت کا حق ہے،نوید زمرد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کا بیان حقائق پر مبنی ہے،حکومت کو اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہو گی ورنہ ملک کے اندر آمریت کا راستہ ہموار ہو گا،جس کی ذمہ دار موجودہ حکمران ہوں گے،محمد حسین ایڈووکیٹ نے کہا کہ سول جج تجربہ کار نہیں ہوتے جس کی وجہ سے عدالتوں میں عوام کو سستا اور فوری انصاف نہیں مل رہا سول ججز بھرتی کرنے کے بعد اِن کو عملی ٹریننگ دینی چاہیے تاکہ عدالتوں میں کیسوں کا فیصلہ کرتے وقت اِن کو آسانی ہو،سول جج کے فیصلے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں،تجربے اور قابلیت کی بنیاد پر اگر فیصلے ہونا شروع ہو جائیں تو اعلیٰ عدلیہ میں مقدمات کی تعداد کم ہو جائیگی اکثر سول ججز کے فیصلوں میں کوتاہیاں نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے اپیل کرنا پڑتی ہے،میاں نذر الاسلام ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ عدلیہ کرپٹ نہیں،سول ججز کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے اور کم ازکم روزانہ ایک جج کے پاس 15سے20مقدمات سماعت کیلئے ہونے چاہیں تاکہ وہ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے کریں،عدلیہ تحریک کے ثمرات نظر آرہے ہیں جس کی وجہ سے ججز بہادر ہو گئے ہیں اور بلا خوف و ڈر اپنا اپنا کام کر رہے ہیں،عدلیہ اور بار کے درمیان محاذ آرائی اچھی روایت نہیں اس سے وکلاء کے بارے میں عام معاشرے میں منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔