نابالغ افراد یہ کالم ہرگز نہ پڑھیں
اس خوش بخت طالب علم نے میرے دیرینہ نقطۂ نظر کو خوب تقویت دی۔ میرا کہنا ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اپنے دیسی محاورے روزمرہ کے مصداق، باپ کا جوتا جب بیٹے کے پاؤں میں آ جائے تو باپ کو لب و لہجہ بدل دینا چاہیے۔ کچھ بھی پڑھاؤں، استاد محترم ڈاکٹر عبداللہ عزام شہید کے اسلوب پر عمل کرتے ہوئے وقت کا خاصا بڑا حصہ طلبا کے سوالات کے لیے مختص کر رکھا ہوتاہے۔ اس دن بھی کچھ ایسی ہی صورت حال تھی۔ ایل ایل ایم کے طلبا کوئی بچے تو ہوتے نہیں، عملی زندگی کی کم از کم دو چار بہاریں دیکھ کر ہی ایل ایل بی کے بعد اس جگہ پڑاؤ کرنے آتے ہیں۔ میرا جوتا تو ان کے پاؤں میں آ ہی جاتا ہے،سوجھ بوجھ اور فہم و فراست میں بھی یہ لوگ استاد کے ہم پلہ ہی ہوتے ہیں، تجربے اور معاملہ فہمی میں بھلے استاد سے کم ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم جولی اور ہم دم دیرینہ تو ہم ان بالکوں کو بنانے سے رہے، بات ان کی وزن دار ہو تو مجھے کبھی پس قدمی میں تامل نہیں رہا۔ علم ہو یا معلومہ، ان پر کسی کی اجارہ داری آج تک قائم نہیں ہو سکی۔
’’وہ سر! وہ دادی اماں کا کہنا ہے کہ اس کم بخت موبائل میں سے تمام تصویریں حذف کر دو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھلکھلا اٹھی۔ سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے بولی۔ ’’سر! ان کا کہنا ہے کہ نبیؐ سائیں نے گھر میں کتے کے داخلے اور تصویر رکھنے سے منع فرمایا ہے کہ ان دونوں میں سے گھر میں کسی کاوجود رحمت کے فرشتے کو گھر میں داخل ہونے سے روک دیتا ہے۔ سر! کتے تو ہم مسلمانوں کے گھروں میں خال خال ہی ہوتے ہیں، اگر ہوں تو وہ بھی بگڑے ہوئے رئیسوں یا نودولتیوں کے ہاں ہی ہوتے ہیں۔ یہ تصویر کا مسئلہ تو سر میری سمجھ سے مطلقاً کہیں اوپر سر بہت ہی اوپر ہے۔‘‘ میں دل جمعی سے اس کی بات سنتے سنتے جواب کے لیے الفاظ بھی وہیں کہیں مرتب کرنے لگا۔ لیکن الفاظ تھے کہ ترازو پرتلنے کے لیے رکھے مینڈکوں کی طرح پھدک کر اتر جاتے۔ ایک کو پکڑتا تو دوسرا چھلانگ مار تا اور یہ جا اور وہ جا۔ دو ایک کو پکڑ کر جملہ
بندی(Articulation) کے عمل میں کچھ کامیابی ہو بھی گئی لیکن خود دل کو تسلی نہ ہوئی۔ کچھ وقت لینے کی خاطر کہ جملہ بندی شاید ہو جائے، میں نے اس بالکی کو قدرے، جی ہاں، تحکمانہ لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے پوچھا، ’’تو اس میں مسئلہ کیا ہے جب نبیؐ سائیں نے کہا ہے تو مان لینے میںآپ کیوں متامل ہیں۔ کیا نبیؐ سائیں کے فرمودہ پر تمہاری ذہنی تشکیک کا سایہ تو نہیں پڑ گیا۔‘‘ پہلے وہ روہانسی ہوئی، پھر اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ پورے کمرہ جماعت میں ایک پراسرار سا سناٹاتھا۔ طلبا کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے میں نے مار کر اٹھایا کہ تختۂ ابیض پر کچھ رقم کر کے موضوع سخن کو کچھ ملائم کر سکوں۔
’’سر! یہ کیسے آپ نے سوچ لیا‘‘ ؟ اب اس کے الفاظ میرے پردۂ سماعت سے ٹکراتے ٹکراتے ذہن میں جا براجمان ہوگئے ۔ لمحوں کے اندر ذہن نے اس کی لوچدار آواز کو سنسر کرتے ہوئے الفاظ کے زیروبم کا تجزیہ کر کے شعور کی تختی پر رپورٹ پیش کر دی، ’پروفیسر سارا سال تم ان معصوم روحوں کو یہی سبق دیتے رہے ہو کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اب اسی دین فطرت اور نبیؐ سائیں کے فرمان میں تطابق کا مسئلہ آج تمہیں درپیش ہے۔ یہ مطابقت پیدا نہیں کر سکتے تو اس گلی میں گئے کیوں تھے‘ ۔ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ دو ایک لڑکے، حسب دستور معاشرہ، اس کے ہم نوا بن کر میدان میں آ گئے۔‘‘ سر! ہم میں سے کوئی ایک بھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ نبیؐ سائیں کا فرمان لائق تشکیک ہے۔ سر! وہ، وہ ابراہیم علیہ السلام نے بھی تو اللہ میاں سے کہا تھا نا کہ اے میرے رب مجھے تمہاری قدرت کاملہ پر کوئی شک نہیں بس ذرا اس کا مظاہرہ دکھا دے۔
سر ہمیں بس یہ سمجھا دیں کہ دین فطرت میں کتے اور تصویر کے باعث گھر میں رحمت کے فرشتے کیوں نہیں آتے۔ آخر کوئی سبب تو ہو گا۔ سر! آپ ہی نے بتایا تھا کہ نص (Devine Text) میں اوامر و نواہی کی کوئی نہ کوئی : (1) حکمت، یا (2) علت ہوا کرتی ہے۔سر! حکمت کا سراغ لگانا تو خاصی دماغ سوزی کا کام ہوا کرتا ہے اور ہر کسی کے بس کا روگ بھی نہیں ہوتا لیکن علت کی پہچان تو فقیہ (Jurist) کا پہلا کام ہوا کرتا ہے۔سر! اب یہ کہہ کر موضوع بدل نہ دینا کہ میں فقیہ نہیں ہوں۔ آپ نہیں ہیں تو فقہا نے اس بابت جو لکھا ہے وہی بتا دیں۔ سر! تصویر کو چھوڑیں آج کتے کی بابت بات کریں۔ فقہا کا کہنا ہے کہ کتاشکار کر کے مالک کے پاس لے آئے تو وہ بعض شرائط کے ساتھ حلال ہے۔ لیکن سر! کتے کو گھر میں رکھنے سے رحمت کے فرشتے والی بات سمجھ نہیں آتی۔‘‘
پتہ نہیں کوئی نیکی کام آئی یا خالق کائنات نے اپنے دین کی وکالت خود کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ طلبا میں سے سب سے کم گو، شریف النفس او ر پڑھاکو قسم کے ایک طالب علم نے ہاتھ کھڑا کیا: ’’سر! نہ آپ انہیں سمجھا سکتے ہیں اور نہ یہ سمجھ سکتے ہیں۔ یہ آپ کے بس کا روگ ہی نہیں ہے۔‘‘ سٹ پٹا کر رہ گیا۔ ’’کھڑے ہو جاؤ‘‘ وہ کھڑا ہو گیا۔ ’’جو کچھ کہا ہے، کہنے سے قبل سوچا بھی تھا؟‘‘ چند ثانیے وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا۔ ذرا دیر خاموش رہا۔ پھر کسی ایسے ناقابل یقین قسم کے لہجے میں بولا: ’’سر! آپ وقفہ کر کے پہلے مجھ سے سمجھیں۔ سر! پلیز برا نہ مانیے۔ آپ سمجھ جائیں گے۔ لیکن واپس آ کر ان کو سمجھا نہیں پائیں گے۔
یہ میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں جو کام نبیؐ سائیں نے نہیں کیا، اس کا اُمتی کیسے کر سکتا ہے۔ سر! وقفہ کریں پلیز‘‘! مرتا کیا نہ کرتا، وقفے کا اعلان کیا اور اعلان بھی اتنا اجمالاً کہ موقوف کردہ وقت بھی میں نے نہ بتایا۔ ’’ہاں میاں بولو! یہ کیا اتنا بڑا دعویٰ کر گزرے ہو، اوّل تو آپ بولتے ہی نہیں اور جو بولے ہو تو۔۔۔ ‘‘ آگے میں نے وہ محاورہ استعمال کر دیا جو ایسے مواقع پر بولا جاتا ہے۔ ’’سر! اب ہم پرنسپل کے کمرے میں بیٹھ کر چائے پیءں گے۔ وہ کمرہ آج خالی ہے۔ کچھ باتیں کریں گے اور وقفہ اگلی کلاس تک طول پکڑے گا۔ میں آپ کو کچھ باتیں بتاؤں گا اور آج آپ میری باتیں سن کر اس کا عملی تجربہ گھر جا کر کریں گے۔ میں اگلی کلاس میں دیکھوں گاکہ آپ کیسے اس موضوع پر بولیں گے۔ سر! جو بات اللہ کے نبیؐ نے اشارے میں کری ہے، اسے بیان کرنا آپ کا ذوقِ سلیم اجازت ہی نہیں دے گا۔‘‘
عربوں کے پالتو جانوروں کی فہرست کچھ زیادہ طویل نہیں ہے۔ عربوں کا ذکر اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کہ کتے اور تصویر والی حدیث عربوں کے ماحول میں ہے۔ لہٰذا اس کے اسباب و ظروف بھی عربوں کے ہیں۔ عربوں سے باہر نکلیں تو فہرست میں رد و بدل دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ اپنے شمالی علاقہ جات میں چلے جائیں، گائے بیل ہوں نہ ہوں، یاک وہاں کا پالتو جانور ہے ۔ ہندوستان پاکستان سے آگے برما، تھائی لینڈ اور ویت نام تک بھینس گھروں میں پالی جاتی ہے۔ اونٹ کی شناخت ہی عرب ریگستان سے عبارت ہے۔ بھیڑ بکری کم و بیش دنیا کے ہر ملک میں مشترکہ پالتو جانور جانا جاتا ہے۔ عرب جس جانور کو پالنا فخر سمجھے ہیں، جس کی ملکیت ان کے لیے باعث امارت ہوا کرتی تھی وہ گھوڑا ہے۔ گھوڑے کے دیگر بھائی بند جو گھوڑے ہی کی طرح باربرداری اور سواری کے کام آتے ہیں، وہ خچر اور گدھا ہیں۔ یہ پالتو جانور بھی ’’بین الاقوامی‘‘ ہیں۔ یورپ، امریکہ، برازیل والے لاطینی امریکہ اور ایشیا سے آگے آسٹریلیا تک یہ جانور آج بھی وہی اہمیت رکھتے ہیں۔
میں حیاتیات کا استاد نہیں ہوں۔میں اس کے بارے میں واجبی سی فنی معلومات بھی نہیں رکھتا، اس لیے اس فہرست میں اضافہ کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ تاہم قارئین میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ پالتو جانوروں میں کتا بھی شامل ہے، کہیں یہ شوقیہ پالا جاتا ہے تو کہیں شکار کی غرض سے۔ بعض لوگ اور معاشرے اسے دیگر مویشیوں، جانوروں کی رکھوالی کی غرض سے پالتے ہیں۔ سراغ رسانی کے ضمن میں یہ جانور محیرالعقول صلاحیتوں کا مالک ہے۔ذرا غور کریں تو ان تمام پالتو جانوروں میں یہی وہ واحد جانور ہے جس کے حوائج ضروریہ کا انداز دیگر حیوانات سے مطلقاً الگ اور انسانوں سے مماثل ہے۔ باقی تمام پالتو جانور حوائج ضروریہ کے لیے موقع و محل دیکھے بغیر فراغت حاصل کر لیتے ہیں۔ کتا وہ حیوان ہے جو ضرورت پوری کرتے وقت گھر سے باہر چلا جاتا ہے یا اسے باہر لے جایا جاتا ہے۔
اس برخوردار کے لہجے کے تیقن نے مجھے خاموش کر دیا۔ ’’ٹھیک ہے بیٹا! ایسے ہی ہو گا لیکن تمہارا یہ کہنا کہ میں کلاس کو سمجھا نہیں پاؤں گا، کچھ بے ربط سا بیان ہے۔‘‘ اس نے مجھے بھرپور نظروں سے گھور کر دیکھا۔ اسے صفائی کے کچھ نمبر دے دئیے کہ کلاس کا سب سے نیک اور مؤدب لڑکا تھا۔کچھ دیر ہم دونوں کے مابین تناؤ کی سی کیفیت رہی۔ ’’سر! بقول آپ کے انٹرنیٹ نے جہاں بہت سے مسائل پیدا کیے ہیں،وہاں میرے مطابق بہت سے مسائل کی تحلیل کا ذمہ دار بھی یہی نیٹ ہے۔ سر یہ نیٹ نہ ہوتا تو کتے کو گھر کے اندر رکھنے سے رحمت کے فرشتے والی بات مجھے کبھی سجھ نہ آتی۔‘‘ اس نے چائے کا آخری گھونٹ لیا، پیالی کو میز کے ایک کونے میں سِرکایا، مجھ سے اجازت لیے بغیر اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے کچھ غصہ آگیا۔ میں ذرا درشتی سے بولنے کو تیار ہوا ہی تھا کہ اس سے نگاہیں نیچی کر لیں۔
’’سر! میں نے اپنے لیپ ٹاپ سے آپ کو ایک میل بھیجی ہے۔ اس میل میں کچھ سائیٹس ہیں۔‘‘ احتراماً اس نے اپنا رخ میری مخالف سمت میں کر لیا۔ شاید اس میں نظریں چار کرنے کا یارا نہیں تھا۔ ’’وہ سائیٹس دیکھ لیں۔ سر! حدیث کی معنویت سمجھ میںآتی جائے گی۔ کچھ سمجھ میں نہ آئے تو جوچور کی سزا وہ میری سزا۔ چاہیں تو ہاتھ بھی کاٹ دیں اف نہیں کروں گا۔ یہ لیجئے سر میرا ہاتھ اگر حدیث کی تعبیر و تشریح سمجھ میں نہ آئے تو اگلی دفعہ اسے اپنے ہاتھ سے ملانے کی بجائے کاٹ دینا، ۔‘‘ اس نے میرے تبصرے یا جواب کا انتظار نہ کیا میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا، زور دار مصافحہ کیا اور مجھے حیران و پریشان چھوڑ کر کمرے سے نکل گیا۔
اپنے ڈیل ڈول، قدو قامت جسمانی ساخت اور حوائج ضروریہ کے انداز کار کے باعث کتا وہ واحد جانور ہے جس کی رسائی گھر کی چار دیواری ہی تک نہیں لوگوں کے بیڈ روم تک ہوتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یورپ و امریکہ میں ڈیڑھ دو مرلے کے گھروں میں سے ہر تیسرے گھر میں گاڑی یا سائیکل ہو یا نہ ہو، کتا ضرور ہوا کرتا ہے۔ کتا بجائے خود نہ تونحس ہے نہ متبرک۔ زندگی کے پیمانے پر اسے دیکھا جائے تو یہ انسانیت کے لیے نہایت مفید جانور ہے، انسان اس سے بخوبی کام لیتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ بس یہی امتناع دیتے ہیں کہ کتا گھر کے اندر ہو تو رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔ اس برخوردار طالب علم کی میل سے میں نے صرف ایک سائٹ کھولی تو زیادہ دیر کچھ نہ دیکھا گیا، ابکائیاں سی آنے لگیں۔ لیکن میرا مسئلہ اس طالب علم کی ہودگی یا بے ہودگی نہیں تھا۔مسئلہ یہ پریشان کیے جا رہا ہے کہ کتا بیڈ روم میں کہاں کہاں تک پہنچ چکا ہے۔ جہاں جہاں پہنچا ہے اس نے رحمت کے فرشتوں کو نکال باہر کیا ہے، بھینسیں کس کھیت کی مولی ہیں۔ قارئین کرام! میری اس تحریر کو (اللہ گواہ ہے) سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ عامۃ الناس کے گھروں کے اندر کتے کا وجود کچھ زیادہ اہم نہیں لیکن:
فطرت افراد سے اغماض تو کر سکتی ہے
نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف
قارئین کرام! جُگتیں اور لطیفہ گوئی کو بالائے طاق رکھیں۔ محرم راز خالق کائنات کے الفاظ الہامی الفاظ ہیں۔ میرے آپ کے گھر میں رحمت کے فرشتے نہ آئیں تو ہم خودہی بھگتیں گے، کسی دوسرے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن کتا اگر وہاں پہنچ جائے جسے سیاسیات میں پاور کوریڈور کہا جاتا ہے تو مسجدوں، مندروں، گوردواروں،کلیساؤں اور صوامعہ میں دعاؤں کی ضرورت ہے، شدید ضرورت ہے۔ اس دفعہ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے ملکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کراس اسلامی جمہوریے پربڑا مضبوط پنجہ ڈالا ہے۔ یہ کالم سنبھال کر رکھیں تاکہ سند رہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود میرا تعلق لاتقنطوا والے زمرے سے ہے۔ لیکن کالم ضرور سنبھال کر رکھیں۔ وما علینا اِلا البلاغ۔