سچ کی پہلی قسط
لیجئے جناب سچ کی پہلی قسط سامنے آ گئی ہے، وفاقی وزیر خزانہ جناب قبلہ اسد عمر صاحب اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اسحاق ڈار کا آئی ایم ایف کے پاس جانے میں کوئی قصور نہیں اور گذشتہ حکومت کی آئی ایم ایف سے ڈیل درست تھی ۔ موجودہ حکومت کے کسی اہم ستون کی طرف سے یہ مسلم لیگ (نون) حکومت کی تعریف میں پہلا اعترافی بیان ہے۔ ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں وہ مسلم لیگ (نون) حکومت اور میاں نواز شریف کی مزید تعریفیں کرنے پر مجبور ہو جائیں۔مجھے یاد ہے ہمارے لڑکپن میں جب اینڈی رابرٹس اور مائیکل ہولڈنگ طوفانی باؤلنگ کر رہے ہوتے تھے تو ہماری گلی کے نکڑپرریڑھی پر کیلے بیچنے والا شمسو بھائی بھی پاکٹ سائز ریڈیو کان سے لگائے زبردست جذباتی انداز میں کہا کرتا تھا کہ یہ ظہیر عباس فرنٹ فٹ پر آکراگر انہیں تین چارچوکے مار دے تو یہ اپنی ساری باؤلنگ بھول جائیں گے۔
اینڈی رابرٹس اور مائیکل ہولڈنگ کے طوفانی باؤنسرز کا کھیلنا کس قدر جان جوکھوں کا کام تھا یہ بات ظہیر عبا س کو پتہ تھی لیکن اس بے چارے شمسو بھائی کو نہیں۔ وہ تبصرہ کرتے ہوئے فرنٹ فٹ پر ماجد خان اور ظہیر عباس کے چوکوں چھکوں کا انتظار کرتا رہتا اورآہستہ آہستہ اپنے کیلے ختم کرکے شام تک گھر چلا جاتا۔ اینگرو کمپنی کو اپنے دور سربراہی میں ناکامی سے دوچار کرنے والے اسد عمر بھی جب تک اپوزیشن میں تھے شمسو بھائی کی طرح پاکٹ سائز ریڈیو کان سے لگائے عالمی معاشی اینڈی رابرٹسوں اور مائیکل ہولڈنگوں کو فرنٹ فٹ پر چوکے چھکے مارنے کا شور مچاتے رہتے تھے۔ اب جب کہ ان کے لیڈر عمران خان نے انہیں پیڈ کروا کر وکٹ پر بھیج دیا ہے انہیں بھی پتہ لگ چکا ہے کہ یہ خالہ جی کے گھر کا پچھواڑا نہیں بلکہ ایک ایسی گرین ٹاپ باؤنسی وکٹ ہے جہاں صرف وہی بیٹسمین کھڑا رہ سکتا ہے جو تکنیکی طور پر درست ہو کیونکہ امریکہ اور چین عالمی معیشت کے اینڈی رابرٹس اور مائیکل ہولڈنگ ہیں ۔
ہزاروں سال سے انسان کا تجربہ بتاتا ہے کہ جھوٹ جتنا بھی بولا جائے، بالآخر سچ کو ہی غالب ہونا ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جھوٹ کے نتیجہ میں اجڑنے والے گلشن کو دوبارہ آباد کرنے میں بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان ترقی اور خوش حالی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن تھا کہ راستہ میں کھڑے کنٹینروں اور لاک ڈاؤنوں نے راستے بلاک کردئیے ۔میاں نواز شریف نے 2013 میں جب اقتدار سنبھالا تھا تو اس وقت ہماری معیشت کی ترقی کی شرح 1.5 فیصدتھی۔ مسلم لیگ (نون) حکومت کی درست معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پہلے سال یہ بڑھ کر 3.5فیصد اور اس کے اگلے سال 4.5 فیصد پر پہنچ گئی۔ حکومت کے تیسرے سال میں یہ 5.8 فیصد پر پہنچی اور حکومت کے آخری دن تک مسلم لیگ (نون) نے ترقی کی 5.8 فیصد کی شرح برقرار رکھی۔
ان دنوں عالمی بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف سمیت دنیا کے تمام مالیاتی ادارے اور ماہرین متفق تھے کہ معیشت کی بنیاد اتنی مضبوط کر دی گئی ہے کہ اگلے کئی سال یہ نہ صرف 5.8 فیصد پر برقرار رہے گی بلکہ اس سے بھی اوپر جائے گی۔ پھر پاکستان میں پانامہ، اقامہ، نااہلی اور نالائقی کا کھیل شروع کر دیا گیا ، یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ایک ہرے بھرے خوبصورت گلشن پر ٹریکٹر اور بلڈوزر چلا دئیے جائیں۔ میاں نواز شریف کو پہلے نااہل اور پھر پابند سلاسل کیا گیا اور ملک میں ایسے انتخابات کرائے گئے جس میں رزلٹ پہنچانے کے ترسیلی نظام RTS کو بند کرکے حسب منشا نتائج سنائے گئے۔ وہی عالمی مالیاتی ادارے جو نوید سنا رہے تھے کہ اگلے کئی سال پاکستان میں معیشت کی ترقی کی شرح 5.8 فیصد یا اس سے زیادہ رہے گی، اب بتا رہے ہیں کہ یہ 4.5 فیصد سے بھی کم رہے گی اور ہو سکتا ہے یہ 4 فیصد سے بھی کم ہو جائے۔
آئی ایم ایف کا تو کہنا ہے کہ یہ 3 فیصد رہے گی میاں نواز شریف کے دور میں سٹاک مارکیٹ پوری دنیا میں نمبر ون کارکردگی کا مظاہرہ کر تے ہوئے 54000 پر برقرار تھی، ان کے جانے کے بعد ایسی سجدہ ریز ہوئی کہ معصوم پاکستانیوں کی شبانہ روز محنت کی کمائی کے سینکڑوں ہزاروں ارب نالیوں اور گٹروں میں بہہ گئے۔ اسی طرح میاں نواز شریف کے جانے کے بعد صرف سٹاک مارکیٹ ہی نہیں بلکہ روپے کی قدر بھی ایسی زمین بوس ہوئی کہ اپالو راکٹ کی طرح ہمارے روپے نے بھی عمودی پرواز پکڑ لی۔ اب ایسے لگتا ہے کہ روپے کا سفر مریخ سے بھی آگے مشتری اور زحل تک جائے گا۔ تیسری چوتھی جماعت کا طالب علم بھی یہ بتا سکتا ہے کہ 100 روپے کی چیز اگر 138 روپے کی ہو جائے تو یہ سیدھا سیدھا 38 فیصد اضافہ ہے۔یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے قوم پر بڑی مہربانی کی ہے کہ کچھ سچ سامنے لے آئے ہیں لیکن اس تمام اتھل پتھل میں پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیسے ہوگا اور اس کے ذمہ داران قوم سے معافی کب مانگیں گے۔؟
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ پڑھنے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جاتا ہے۔ یہ رپورٹ کسی اپوزیشن یا حکومت کے بد خواہ کی طرف سے نہیں آئی ہے بلکہ اس حکومت کے سرکاری ریگولیٹر بینک نے جاری کی ہے جس حکومت کے سربراہ عمران خان اور وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر بقلم خود ہیں۔جب 2013 میں میاں نواز شریف کی حکومت اقتدار میں آئی تھی اس وقت پاکستان کی Nominal GDP کا کل حجم پاکستانی روپوں میں 22,386 ارب تھا جومسلم لیگ (ن) کے دور کے اختتام پر 2018 میں 34,396 ارب تک پہنچ چکا تھا۔ گویا ان پانچ سالوں میں ملکی معیشت میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ یہ وہی پانچ سال ہیں جب عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہو کر لوگوں کو معیشت کی غلط تصویر دکھا رہے تھے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اسی دورانیہ میں معیشت کا حجم 50 فیصد سے زیادہ بڑھا جو پاکستان کی پوری تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔
انہی پانچ سالوں میں صرف یہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ قومی آمدنی میں بھی 25 فیصد کا اضافہ ہوا۔ جب سے عمران خان حکومت آئی ہے لوگوں کو لگاتار گمراہ کر رہی ہے کہ معاشی ابتری کی وجہ پچھلی حکومتوں کی طرف سے لئے گئے قرضے ہیں لیکن اصل حقائق اس کے برعکس ہیں۔ میاں نواز شریف کے دور میں gross public debtمیں اضافہ کی اوسط شرح 178 ارب روپے فی مہینہ تھی جو اب عمران خان کے دور میں دوگنی ہو کر 375 ارب روپے فی مہنیہ ہو چکی ہے۔ اسی طرح بیرونی قرضے جو میاں نواز شریف کے دور میں 67 ارب روپے فی مہینہ تھے، وہ اب بھی 67 ارب روپے فی مہینہ ہی ہیں۔ جب بیرونی قرضے اتنے ہی ہیں اور اندرونی قرضے دوگنے ہو چکے ہیں تو یہ کیسی تبدیلی ہے جس کا ڈنڈھورا پیٹا جا تا رہا ہے۔
پہلے کنٹینر پر کھڑے ہو کر اور اب وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھ کر غلط بیانی کرنے سے نہ تو اعداد وشمار تبدیل ہوجائیں گے اور نہ ہی حقائق کو موم کی ناک کی طرح موڑا جا سکے گا۔ وزیر خزانہ اسد عمر کی طرف سے سچ کی پہلی قسط سامنے آنے کے بعد ایک خوش گمانی یہ رکھنے میں قطعاً کوئی مضائقہ نہیں کہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف اب سے درست اعدادوشمار قوم کے سامنے رکھیں گے۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ محض مسلم لیگ (نون) اور میاں نواز شریف کو برا کہنے کے لئے ملکی معیشت کوغلط اعدادو شمار کے ذریعہ داؤ پر لگا دیا جائے جس کی جھلک ہم پہلے ہی سٹاک مارکیٹ کریش اور روپے کی قدر میں ہوشربا کمی یا سعودی عرب اور عوامی جمہوریہ چین کی ہم سے بیزاری اور پیچھے ہٹ جانے کی شکل میں دیکھ چکے ہیں اور جس کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا تمام راستے بند ہو چکے ہیں۔ اگر عمران خان نے کنٹینروں اور لاک ڈاؤنوں سے ملکی ترقی اور خوش حالی کی شاہراہیں بند نہ کی ہوتیں تو آج دنیا بھر کے راستے ہمارے لئے کھلے ہوتے۔
زبان چلانے اور حکومت چلانے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ عمران خان اور اسد عمر پانچ سال زبان چلاتے رہے، اب حکومت چلانی پڑ رہی ہے تو صرف محاورۃ نہیں بلکہ حقیقت میں بھی آٹے دال کا بھاؤ پتہ چل رہا ہے۔ کتنا آسان تھا کہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر دروغ گوئی کرتے اور ملک کے نا پختہ ذہنوں میں وسوسے پیدا کرتے جاؤ۔ اگر عمران خان نے تعمیری اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہوتا، میاں نواز شریف کے مینڈیٹ کا احترام کیا ہوتا، ملک کی ترقی اور خوش حالی کی باتیں کی ہوتیں اور سسٹم کو ڈی ریل کرنے کی بجائے اسے مضبوط کرنے کی کوشش کی ہوتی تو آج انہیں یہ سب وراثت میں نہ ملا ہوتا جس کا وہ جائز اور ناجائز شکوے کر رہے ہیں۔
اسد عمر کے اعتراف کے بعد یوں تو بہت سے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں لیکن سب سے اہم سوال یہی ہے کہ اگر اس میں کچھ غلط نہیں تھا تو عمران خان اور وہ خود پانچ سال تک کیوں قوم سے غلط بیانی کرتے رہے۔آئی ایم ایف سے جو قسط ملنا ہے ، اپنے مقررہ وقت پر مل ہی جائے گی لیکن سچ کی پہلی قسط سامنے ضرور آ چکی ہے۔
تعلیم کا حصول بچوں کا بنیادی حق ہے اور ریاست کا