چیف جسٹس نے انصاف کی لاج رکھ لی

چیف جسٹس نے انصاف کی لاج رکھ لی
چیف جسٹس نے انصاف کی لاج رکھ لی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک کا چیف جسٹس اب اس سے واضح پیغام کیا دے سکتا ہے کہ استعفا دے دوں گا انصاف نہیں چھوڑوں گا۔ ابھی 12 اکتوبر کو ہی مَیں نے ایک کالم بعنوان ’’فوری انصاف ہنوز دلی دور است‘‘ لکھا تھا جس میں دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ اس بات کا ذکر بھی کیا تھا کہ وکلاء سیاست کی وجہ سے جج صاحبان پر بہت دباؤ رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ بروقت فیصلے نہیں کر سکتے یہ بھی کہا گیا تھا کہ افتخار محمد چودھری نے بطور چیف جسٹس وکلاء کی ہر جائز و ناجائز بات مان کر انہیں عدلیہ پر ایک طاقت کے طور پر مسلط کر دیا۔ اب ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان کی مرضی کے برخلاف کوئی جج جلد سماعت کر کے فیصلہ دے سکتا ہے۔

مَیں نے اسی کالم میں پولیس کے اس انسپکٹر کا ذکر بھی کیا تھا جسے عدالت سے نکال کر وکلاء نے تشدد کا نشانہ بنایا، کیونکہ اس نے ایک تفتیش میں ایک وکیل کی مرضی کے مطابق رائے نہیں دی تھی۔ کل چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس روایت کو توڑ دیا اور ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ وکلاء اپنے ساتھی وکیلوں کے خلاف انسپکٹر پر تشدد کرنے اور دہشت پھیلانے کا مقدمہ خارج کرانے کے لئے لاہور رجسٹری کے باہر دھرنا دیئے بیٹھے تھے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار دھرنے میں پہنچ گئے۔ وکلاء نے ان کی موجودگی میں شیم شیم کے نعرے لگائے اور مطالبہ کیا چیف جسٹس تشدد میں ملوث وکلاء کی گرفتاری کے خلاف حکم امتناعی جاری کریں اور پرچے سے دہشت گردی کی دفعات بھی ختم کی جائیں۔چیف جسٹس نے وکلاء سیاست کے آگے انصاف کو سرنگوں کرانے سے انکار کر دیا، ان کے انکار پر شیم شیم کے نعرے لگے تو انہوں نے کہا مَیں ادارے کا باپ ہوں، مجھے گالیاں بھی کھانا پڑیں تو کھاؤں گا، مگر انصاف کروں گا۔ اس پر ہائی کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ پھر ہم دھرنا دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ دھرنا دیں یا کچھ اور کریں، انصاف سے پیچھے نہیں ہٹا جائے گا۔


یہ واقعہ بہت غیر روایتی ہے، وکلاء کو سو فیصد امید تھی کہ چیف جسٹس ان کے دھرنے میں آئیں گے،ایف آئی آر کو معطل کر دیں گے، پولیس سربراہ کو بُلا کر اس کی سرزنش کریں گے،یوں وکلاء کی مادر پدر آزاد ہونے کی پھر دھاک بیٹھ جائے گی، مگر معاملہ تو اُلٹ ہو گیا۔ چیف جسٹس شاید دھرنے میں گئے ہی اِس لئے تھے کہ سب کے سامنے اپنا یہ پیغام دے سکیں کہ اب اگر ججوں کا احتساب ہوگا تو قانون شکنی پر بچیں گے وکلاء بھی نہیں۔انہوں نے واضح اشارہ دے دیا کہ وکلاء کو اب قانون ہاتھ میں لینے پر عدلیہ کی سپورٹ نہیں ملے گی،بلکہ انہیں بھی قانون کا اسی طرح سامنا کرنا پڑے گا،جیسے عام آدمی کو کرنا پڑتا ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وکلاء اپنے چیف کی بات سُن کر اُن کے سامنے سر تسلیم ختم کرتے، یہ بات کرتے کہ قانون کا وہ بھی اتنا ہی احترام کرتے ہیں،جیسے دوسروں سے توقع رکھتے ہیں،مگر انہوں نے یہاں بھی یہ ثابت کیا کہ وہ ملک کے چیف جسٹس کو خاطر میں لانے کے روا دار نہیں۔انہوں نے چیف جسٹس کے سامنے ایسے نعرے بازی شروع کی جیسے صوبے کا آئی جی اُن سے خطاب کرنے آ گیا ہو۔ایک ایسے چیف جسٹس کے سامنے جس نے ملک میں قانون کا معیار بلند کیا اور ریاست کے تمام اداروں کو مُلک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا،کیونکہ وہ ملک میں قانون اور آئین کے محافظ کی حیثیت رکھتی ہے۔

میرے نزدیک یہ چیف جسٹس کا بہت بڑا امتحان تھا۔اگر وہ مصلحتوں کا شکار ہو کر پولیس انسپکٹر پر تشدد کے مرتکب وکلاء کو ریلیف دے دیتے تو اس تنقید میں شدت آ جاتی جو پہلے ہی عدلیہ پر توجہ نہ دینے کی بابت ان پر کی جاتی ہے۔ پھر یہی کہا جاتا تھا کہ ساری دُنیا سے جیتنے والا اپنے گھر کے افراد سے ہار گیا۔ بار اور بنچ کو انصاف کی گاڑی کے دو پہیئے کہا جاتا ہے،لیکن یہ اتحاد ایسا نہیں کہ ایک دوسرے کو بچانا ہے۔ افتخار محمد چودھری نے جب اپنی بحالی کی تحریک شروع کی تو اُن کی طاقت وکلاء تھے،بحال ہونے کے بعد بھی انہوں نے وکلاء کی طاقت کو اپنے لئے استعمال کیا۔اس کام میں وہ اتنے آگے نکل گئے کہ قانون سسکنے لگا۔ ماتحت عدلیہ کے جج بھی زچ ہو گئے اور عام آدمی کو انصاف بھی مزید مشکل سے ملنے گا۔ اُن کی وکلاء کو آشیر باد کے بعد میڈیا نے ایک اصطلاح استعمال کرنا شروع کی۔ وکلاء کی دہشت گردی۔ وکلاء جہاں چاہتے کسی کو بھی پیٹ دیتے اور زیادہ غصہ آتا تو جج کو بھی نشان عبرت بنا دیتے،پولیس کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ مقدمہ درج کرے،اگر ہو جاتا تو اُس کی کچہری میں کارروائی نہ چلنے دیتے۔


چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی وکلاء کو بہت عزیز ر کھا۔ اُن کی بار ایسوسی ایشنوں سے خطاب کیا،انہیں انصاف کے لئے بنیادی ستون قرار دیا،انہیں سمجھایا بجھایا کہ وہ انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کریں،کیونکہ یہ بہت ثواب کاکام ہے۔ ہائی کورٹ بار ملتان میں جسٹس قاسم خان کے خلاف صدر بار اور دیگر وکلاء کی طرف سے جارحانہ سلوک ہوا تو اس کیس کو بھی حل کرانے میں چیف جسٹس نے کلیدی کردار ادا کیا۔وکلاء کے خلاف دہشت گردی ہوئی، تو از خود نوٹس لے کر پولیس اور انتظامیہ کی سرزنش کی۔ ملتان میں کچہری کو نئے جوڈیشل کمپلیکس میں منتقل کیا گیا تو خود ملتان کا دورہ کر کے حالات کا جائزہ لیا اور کچہری کو دوبارہ ضلع کچہری میں واپس لانے کا حکم دیا۔گویا چیف جسٹس ہر معاملے میں وکلاء کی سرپرستی اور معاونت کرتے رہے،مگر اب معاملہ اُن کے انصاف کی عزت و احترام کا تھا۔پوری دُنیا نے دیکھا کہ وکلاء نے پولیس انسپکٹر کو کس طرح مارا، اُس کی ویڈیو اب بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔

یہ خیال بھی نہیں کیا کہ اس کا والد اسی جگہ موجود ہے اور ایک سینئر وکیل کے طور پر اُن کا بہت نام ہے،اُسے بھی پکڑ کر دور لے گئے اور باوردی انسپکٹر کی خوب درگت بنائی، وردی پھٹ گئی اور چہرے پر زخم آئے۔پولیس نے قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے مضروب انسپکٹر کا میڈیکل کرایا اور قانون کے مطابق مرکزی کردار وکیل سمیت اس کے ساتھ وکلاء کے خلاف دہشت گردی کی دفعات سمیت مختلف دفعات کے تحت پرچہ درج کرایا۔ اب یہ وکلاء جتنے بھی بہادر بنیں، پرچہ درج ہو جائے تو ان کی جان نکل جاتی ہے، حالانکہ قانون کی کتاب ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے، انہیں تو قانون کا سامنا کرنا چاہئے،لیکن ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح چور دروازہ استعمال کر کے مقدمے کو داخل دفتر کرا دیا جائے۔

سب سے مقبول حربہ یہ ہوتا ہے کہ عدالتوں کا بائیکاٹ کر دیا جائے اور کچہری میں دھرنا دے کر نظام کو زنجیروں میں جکڑا جائے۔ اس بار سکیم یہ بنائی گئی کہ چیف جسٹس مقدمات کی سماعت کے لئے لاہور آئیں گے تو ان کے سامنے بھرپور مظاہرہ کیا جائے گا۔ سب وکلاء کو امید یہی تھی کہ چیف جسٹس یہ سن کر فوراً سب عہدیداروں کو اپنے چیمبر میں بُلا لیں گے اور ان کی بات سُن کر مقدمہ یا تو ختم کر دیں گے یا پھر اس میں شامل سخت دفعات، جن میں دہشت گردی کی دفعہ بھی شامل ہے، ختم کر دیں گے۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ پولیس وکلاء کو کیسے گرفتار کرتی ہے۔

مگر جو کچھ ہوا، وہ بالکل وکلاء کی توقعات کے برعکس تھا۔ چیف جسٹس نے دھرنے میں آ کر واشگاف الفاظ میں یہی اعلان کیا کہ مقدمے پر حکم امتناعی جاری ہوگا اور نہ ہی انٹی ٹیررسٹ ایکشن کے تحت کارروائی روکی جائے گی،اس کے تحت دفعات بھی ختم نہیں ہوں گی، ظاہر ہے وکلاء کے لئے یہ بات ناقابلِ یقین اور ناقابلِ قبول تھی۔ انہوں نے مخالفانہ نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ اب یہ صورتِ حال چیف جسٹس کے لئے ناقابلِ قبول تھی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ بلیک میلنگ کا شکار ہو کر انصاف کرنا چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ وہ استعفا دے دیں گے، انصاف کا خون نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس نے مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے،جو اصولی موقف اختیار کیا، اس نے عدلیہ کے وقار کی لاج رکھ لی۔ وہ اگر کمزور فیصلہ کرتے اور اس دور میں جب جج بچ رہے ہیں اور نہ بیورو کریٹس، سیاست دانوں کو رعایت مل رہی ہے اور نہ سابق جرنیلوں کو، وکلاء کو قانون کی گرفت سے آزاد کر دیتے تو انہوں نے اب تک جو ساکھ بنائی ہے، وہ سوالیہ نشان بن جاتی۔ اب وکلاء کے سنجیدہ رہنماؤں کو آگے آنا چاہئے، کیا انہوں نے وکلاء کو ایک فرقہ بنا لیا ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے کی ہر صورت حمایت کرنی ہے، چاہے وہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے کالے کوٹ کو بدنام کر رہا ہے، کیا یہ ضروری نہیں کہ وکلاء برادری میں سے ایسے لوگوں کو نکال باہر کیا جائے جو پوری وکلاء برادری کے منہ پر بدنامی کی کالک مل دیتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -