پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 96ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ، رپورٹ
اسلام آباد(صباح نیوز)قومی اسمبلی میں ماضی میں ملکی و غیر ملکی بھاری قرضوں کے استعمال کی تحقیقات کے لیے قرارداد منظور اور خصوصی کمیٹی بن چکی ہے یہ قرارداد 2012ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں قومی اسمبلی میں منظور ہوئی تھی اس وقت کی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) اس قرارداد کے محرک اوراحسن اقبال اس کمیٹی کے سربراہ تھے تاہم کمیٹی اپنا کام مکمل نہ کر سکی تھی اب یہ معاملہ اپوزیشن کی بجائے حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا ہے، قرضہ96ارب ڈالر سے تجاوزکرچکا ہے،جنرل(ر) پرویزمشرف،پیپلزپارٹی،مسلم لیگ(ن) تنیوں اداورمیں بھاری قرضے لینے کاسلسلہ جاری رہا شروعات جنرل(ر) پرویزمشرف کے دور سے ہوئی۔ خبر رساں ادارے کی خصوصی رپورٹ کے مطابق اُس وقت این اے خصوصی کمیٹی کو 1985ء سے اس وقت 2012ء تک پاکستان کی طرف سے ملکی و غیر ملکی بھاری قرضے لینے اور ان کے استعمال کی تحقیقات کا اختیار دیا گیا تھا پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنماء احسن اقبال کی سربراہی میں گیارہ رکنی این اے خصوصی کمیٹی قائم ہوئی تھی دو ماہ میں رپورٹ پیش کرنا تھی کام مکمل نہ ہوسکا تھا قرضوں کے ذمہ داران اور ان کے استعمال میں بے قاعدگیوں کے اُس وقت بھی تحقیقات مکمل نہ ہوسکی تھی۔سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بھاری قرضوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، بعد ازاں جمہوریت کی بحالی پر پیپلزپارٹی کے دور میں غیر معمولی طور پر قرضے ساڑھے پانچ ہزار ارب سے تجاوز کر کے بارہ ہزار ارب ہو گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان پر بھاری قرضوں کی تحقیقات کے لیے جولائی 2012ء میں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کی قراردادمنظورہوئی تھی۔ 1985ء سے لیے گئے قرضوں کی جانچ پڑتال اور استعمال کی چھان بین کا کام دیا گیا تھا جو مکمل نہیں ہو سکا تھا اب ایک بارپھر یہ معاملہ اٹھ گیا ہے ماضی میں یہ معاملہ اپوزیشن کی طرف سے اٹھا تھا اب یہ معاملہ حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا ہے اور اس حوالے سے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی طرف سے قومی اسمبلی میں قرارداد جمع کروائی گئی ہے ۔ماضی میں ابتدائی تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا تھا ترقیاتی مقاصد کے لیے لیے گئے امدادی اداروں سے لئے گئے غیر ملکی قرضوں کو استعمال نہ کرنے پر پاکستان کو کروڑوں ڈالر کا جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا تھا اس ضمن میں اکتوبر 2012ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ایک امدادی ادارے کو بعض قرضوں کے عدم استعمال پر چھ کروڑتیس لاکھ ڈالر کا قرضہ ادا کرنا پڑا جبکہ عدم استعمال کے باجود قرضہ پر چھتیس کروڑ ڈالر کا سود بھی چڑھ گیا تھا۔