گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اورآئینی حقوق سے متعلق کیس ،وفاقی حکومت سے 14 دن میں تحریری جواب طلب کر لیا
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آف پاکستان نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور آئینی حقوق سے متعلق کیس میں وفاقی حکومت سے 14 دن میں تحریری جواب طلب کرلیا، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت سے کہیں باقی کام چھوڑیں،یہ بنیادی حقوق کامسئلہ ہے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بنچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اورآئینی حقوق سے متعلق کیس کی سماعت کی،گلگت بلتستان بارکونسل کے وکیل سلمان اکرم راجانے گلگت بلتستان کی تاریخی حیثیت کے بارے میں عدالت کوآگاہ کیا،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کے ٹی اوآرزپڑھ کرسنائیں،سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سرتاج عزیز اس کمیٹی کے سربراہ تھے،کمیٹی گلگت کی آئینی اصلاحات پر بنائی گئی تھی،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پوری رپورٹ کے بجائے معاملے کا تاریخی پس منظربتادیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ تقسیم ہند سے پہلے گلگت بلتستان میں ڈوگرہ راج تھا،برطانوی ایجنٹوں کو علاقہ لیز پر دیا گیا،برطانیہ کے اس اقدام اور دائرہ اختیار پربھی سوالات ہیں،اس کے بعد وارآف گلگت بلتستان لبریشن کا آغاز ہوا،جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اس علاقے میں شامل ریاستیں کتنی ہیں؟سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ کل سات ریاستیں ہیں،جن میں گلگت بلتستان سب سے بڑی ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اگر بھارت عبوری سٹیٹس دے سکتا ہے تو ہم نہیں؟،جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے دوسری جانب عبوری سٹیٹس کا لفظ آئین میں لکھ دیا ہے،جی بی کے لوگ پاکستان کے پاسپورٹ پرسفرکرتے اورمراعات لیتے ہیں۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ کمیٹی کا 29 اکتوبر2015 کو باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہوا،کمیٹی کی سفارشات کے بعدجی بی کی عوام کوپاکستانی شہریوں کادرجہ دےدیاگیا،گلگت بلتستان اب مکمل طور پر پاکستان کے کنٹرول میں ہے،وکیل گلگت بلتستان بار نے کہا کہ گلگت بلتستان میں خودمختاری کا اب کوئی ایشو نہیں ہے،جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ گلگت بلتستان ایکٹ کا اب جموں وکشمیر سے کیا تعلق ہے؟،سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ہماراموقف ہے کہ گلگت کاجموں کشمیر سے کوئی تعلق نہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وزیراعظم کے دورے کے دوران گلگت بلتستان کے رہائشیوں کے مسائل سامنے آئے،مسائل پر وزیراعظم نے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی،آپ ہمارے پاس کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرانے کےلئے آتے ہیں،لیکن اس رپورٹ پر ہمارے سامنے حکومت کا کوئی موقف نہیں،یہ تو مکمل انتظامی معاملہ ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حکومت نے اس رپورٹ کو تسلیم کیا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حکومت کا تسلیم کرنا کہاں سے ثابت ہوتا ہے،کیوں نہ اس رپورٹ پرعملدرآمدکامعاملہ وفاقی حکومت کوبھیج دیاجائے؟اس معاملے میں حکومت کا موقف آنا لازمی ہے،اگرحکومت رپورٹ کاکچھ حصہ مستردکرتی ہے توپھرآپ بھی عدالت آسکتے ہیں۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ گلگت بلتستان کے رہائشی اب پاکستان کے شہری بھی ہیں،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا ہے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیٹی سفارشات کی روشنی میں آرڈر2018 جاری کیا گیا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیٹی حکومت نے بنائی تھی کیاحکومت کے پاس ٹائم نہیں اپنی سفارشات کاجائزہ لے؟ اٹارنی جنرل کی جانب سے مزید مہلت کی استدعاکی گئی ،چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت سے کہیں باقی کام چھوڑیں،یہ بنیادی حقوق کامسئلہ ہے، 14 دن کے بعد ایک دن کی بھی مہلت نہیں ملے گی،جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ایک آدمی کی رپورٹ پر ہم چل پڑے،گلگت بلتستان کے لوگ خودکوپاکستانی تصورکرتے ہیں اورکیا چاہیے؟جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ بھارت کشمیرکواپناحصہ بنانے کیلئے آرٹیکل370ختم کرنے کاسوچ رہاہے،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کی پاکستان سے محبت کوبین الاقوامی طورپراجاگرکرنے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگرحکومت کمیٹی رپورٹ کوتسلیم کرے توپھرعدلیہ کاکردارنہیں رہے گا،عدالت نے معاملہ وفاقی کابینہ کوبھجواکرگلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر14دن میں تحریری جواب طلب کرلیا،عدالت نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نوازشریف دورمیں سرتاج عزیزکی سربراہی میں بنائی کمیٹی سے متعلق تحریری جواب دے،عدالت نے کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی۔