خان صاحب ،ذرا تیز چلیں

خان صاحب ،ذرا تیز چلیں
خان صاحب ،ذرا تیز چلیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ درست ہے کہ اس وقت ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے مسائل کی بھر مار ہے،وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں،ایسے میں عمران خان یا حکومتی مشنری کیا کرے،مسائل بھی فوری توجہ کے متقاضی ہیں،وسائل کا حصول بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔مگر دوسری طرف قوم کی آنکھوں میں اتنے خواب سموئے گئے تھے کہ اب قوم مزید انتظار کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی۔ عمران خان اور انکی ٹیم کیلئے یہ امتحان کی گھڑی ہے،ماضی کے حکمرانوں کی ٹال مٹول کی پالیسی اپنانا اب ممکن نہیں،قرض لے کر معیشت چلانا بھی قومی مفاد میں نہیں ہے مگر عوام کوانکے حال چھوڑنا بھی ممکن نہیں،اس صورتحال میں اگر خدانخواستہ عمران خان اور ان کی ٹیم قومی توقعات کے مطابق نتائج نہ دے سکی تو عوام کا نہ صرف جمہوریت بلکہ سیاستدانوں سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا،ایسی صورتحال ملکی سیاست اور جمہوریت کیلئے کسی صورت خوش آئند نہیں ہو گی۔
شریف فیملی کا یہ دعویٰ کہ ہم نے اندھیرے ختم کر دئیے تھے موجودہ صورتحال کی ذمہ دارنئی حکومت ہے بالکل بے بنیاد ہے،موجودہ لوڈ شیڈنگ کی ذمہ داری سابق حکومت پر پوری طرح عائد ہوتی ہے جس نے کوئی مستقل بندوبست کے بجائے عارضی اقدامات کر کے قوم کو اندھیرے میں رکھا ،اندھیروں کو مسلط رکھا اور قوم پر 1200ارب گردشی قرضہ کا بوجھ لاد کر چلتے بنے۔
دو ارب ڈالر ماہانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی موجودہ حکومت کے50روزہ اقتدار کی پیداوار نہیں،کئی سال سے ملکی معیشت اس خسارہ کا بوجھ کندھوں پر لادے ہوئے ہے،برآمدات میں کمی اوردرآمدات میں اضافہ بھی حالیہ دنوں کاکارنامہ نہیں،کئی سال سے ماہرین معاشیات اس حوالے سے پیش گوئیاں کر رہے تھے کہ صورتحال یہی رہی تو نہ صرف فارن کرنسی ذخائر میں کمی واقع ہو گی بلکہ بیرون ملک سے ترسیلات زر کی آمد بھی متاثر ہو گی،آج فارن کرنسی ذخائر اپنی تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں،اور یہ عمران حکومت کے 50روزہ دور میں رونماء نہیں ہوئے،سابق حکومت کی کارستانی ہے،جن کے اپنے کاروبار تو دن دونی رات چونی ترقی کرتے رہے اور قومی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا۔
سابق حکومتوں کے بے دریغ حاصل کئے قرضوں کی قسط اور سود کی ادائیگی کیلئے نئی حکومت کے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر طعن و طنز کے تیر چلانے والے بتائیں یہ قرض کس نے اور کس بنیاد پر اور کس لئے حاصل کئے اوران کا کیا مصرف تھا؟28ہزار ارب ڈالر کی خطیر رقم کہاں گئی،ملک میں تو اتنی بڑی رقم کا استعمال بھی کہیں نظر نہیں آ رہا،صنعت کا پہیہ جام ہے تو زراعت جو ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کا برا حال ہے، کسان چھوٹا کاشتکار ابتر حالات میں زندگی بسر کر رہا ہے،50لاکھ بچوں نے کسی سکول کا منہ نہیں دیکھا،15فیصد آبادی کھانے،بیشتر آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے،ہسپتالوں میں ڈاکٹر ہیں تو دوا نہیں،دوائی ہے تو ٹیسٹوں کی سہولت نہیں،تعلیمی اداروں کی حالت بھی بد ترین ہے ،اساتذہ کی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں،اساتذہ کی بچوں کے مستقبل سے کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے،آوے کا آوا ہی بگڑا پڑا ہے،اور اس کے ذمہ دار کیا عمران خان ہیں؟
عارضی اوروقتی اقدامات سے گھر نہیں چلتے ملک چلانا تو مشکل ہی نہیں ناممکن ہے،مگر سابق حکمرانوں نے ہر دور ،ہر شعبہ میں ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اپنائی جسکا نتیجہ ہے کہ اب ڈنگ ٹپانا بھی مشکل ہو رہا ہے،پرانے قرض اتارنے کیلئے نئے قرض لینا پڑ رہے ہیں،ملکی معیشت سنبھالنے کیلئے عام شہری کی معیشت پر بوجھ ڈالنا پڑ رہا ہے،اس پر بھی فخریہ کہا جاتا ہے ’’ہم نے ملک کی خدمت کی‘‘ملک کی خدمت تو کیا کرنا تھی اپنی سات پشتوں کا مقدر سنوار لیا اور قوم کے کروڑوں بچوں کا حال بھی تاریک کر دیا۔
اب حکومت نے اگر چہ اپنی ترجیحات مقرر کر لی ہیں اور ایسے میں تجربات کی گنجائش نہیں اب جو بھی کرنا ہے ٹھوس بنیاد پر مستقل اقدام کے طور پر کرنا ہو گا،جتنے بھی وسائل دستیاب ہیں اور ان میں جو فطری اضافہ ممکن ہے اس کے سہارے ہی ہمیں آگے بڑھنا ہو گا مگر خان صاحب ذرا جلدی کیجئے۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -