ہمت اور کوشش کی ضرورت

نفسیات کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان پیدائشی طور پر جن صلاحیتوں کا مالک ہے۔ عام طور پر وہ ان کا صرف دس فیصد استعمال کرتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم جیمس نے کہا ہے جو کچھ ہمیں بننا چاہئے، وہ کچھ ہم بننے کے لئے تیار نہیں۔ ولیم جیمس کی کہی ہوئی بات سو فیصد ہم پر پوری اترتی ہے۔ خدا نے ہم کو ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے، لیکن ہم ناشکری پر ناشکری کرتے جا رہے ہیں۔ ہم سے زیادہ بدترین مسائل کے شکار لوگوں نے اپنا نصیب خود اپنے ہاتھوں سے بدل ڈالا۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنے مسائل اور ان کی وجوہات کا تفصیلی جائزہ لیا۔ ان کا حل ڈھونڈا اور ہمت، حوصلے کو اپنی ذات میں جمع کیا اور ترقی، خوشحالی کے راستے پر پہلا قدم رکھ دیا۔ اس راستے پر انہیں بے پناہ مسائل، پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور نہ اپنے حوصلے پست ہونے دیا اور آخر کار پریشانیوں، مسائل، مصیبتوں نے ان کے روبرو شکست تسلیم کر لی اور ان کے راستے سے ہٹ گئیں، کسی بھی منزل پر پہنچنے کے لئے پہلا قدم اٹھانا لازمی ہوتا ہے۔
صرف بُرا بھلا کہنے سے اپنی قسمت اور نصیب کو کوستے رہنے سے حالات ٹھیک نہیں ہوتے اور نہ ہی تبدیل ہوتے ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے قسمت اور نصیب کبھی بدلا نہیں کرتے۔ صرف خواہشات کافی نہیں ہوتیں، اگر صرف خواہشات سے حالات تبدیل ہو سکتے تو ہمارے حالات نا جانے کب کے تبدیل ہو چکے ہوتے۔ دوسروں کو الزام دینا بزدلی، کم ہمتی اور اعتراف شکست ہوتا ہے۔ دعائیں بھی اس وقت اثر کرتی ہیں۔ جب دوا بھی ساتھ ساتھ جا ری ہو، اگر آپ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ صرف خواہشات سے حالات تبدیل ہو جائیں گے تو بیٹھے رہیے۔ انتظار کرتے رہیے۔ آخر وہ وقت آ جائے گا، جب آپ کے پیارے آپ کی ابدی زندگی کے لئے دعا گو ہو رہے ہوں گے۔ یہ آپ پر خود منحصر ہے کہ آپ اپنی زندگی کن حالات میں گزارنا چاہتے ہیں، اگر آپ اپنی بد حالی، غربت، افلاس، بے اختیاری میں خوش و خرم ہیں تو کوئی بھی آپ کو اپنے حالات تبدیل کرنے کے لئے اصرار نہیں کرے گا آپ اپنے ان ہی حالات میں مزے کیجئے۔
خوش و خرم رہیے، ذات برداشت کرتے رہیے۔ کڑھتے رہیے، دوسروں کو بُرا بھلا کہتے رہیے اور دعا کرتے رہیے کہ جو خوشیاں، عیش و آرام، نعمتیں سکون دنیا میں نصیب نہ ہو سکا، وہ خدا آپ کو جنت میں نوازے، لیکن اگر مر کر بھی چین نہ آیا تو پھر کیا کیجئے گا۔ ایک دوسرا راستہ اور ہے جو آپ کی موجودہ اور ابدی زندگی سنوار سکتا ہے۔ وہ راستہ ہے، ہمت، جرأت، حوصلے کا، آئیں،کم ہمتی، بزدلی، ڈرپوکی کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیں اور غاصبوں، ظالموں، لٹیروں سے اپنے حقوق، خوشحالی، چین، سکون اپنے لئے اور اپنے پیاروں کے لئے دوسرے مظلوموں کے لئے چھین لیں۔
اپنے بھی نصیب بدل ڈالیں اور ملک کے تمام بے کسوں، مجبوروں، مظلوموں کے نصیب بھی بدل ڈالیں۔ کم ہمتی اور بزدلی جرم ہیں، اگر اب مجرم بن کر جینا چاہتے ہیں تو پھر آپ کی مرضی موجودہ دور سائنس کمپیوٹر کا ہے۔ تمام حالات اور واقعات ہر طرح میسر ہیں۔ کسی کی تقریروں، کہانیوں سے مطمئن ہونے کی ضرورت نہیں۔ تمام لیڈروں، سیاستدانوں کا ماضی ہر طرح ظاہر ہو رہا ہے ان کے چند سال پہلے کیا وسائل تھے اور وہ دس سال، پندرہ سالوں، بیس سالوں میں کس طرح سینکڑوں سے لاکھوں، کروڑوں، اربوں پتی بن گئے ہیں۔ سائیکلوں، موٹر سائیکلوں سے اتر کر بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک بن گئے چند مرلوں میں رہائش رکھنے والے ایکڑوں کی کوٹھیوں اور بنگلوں کے مالک کس طرح بن گئے آخر ملکی وسائل جو ملک کے عوام پر خرچ ہونے تھے وہ کہاں گئے۔
اب مزید دیر نہ کریں اٹھ کھڑے ہوں ملک دشمنوں کے خلاف وہ جس شکل میں مرضی موجود ہوں ان کو پہچانیں اب ان کے بہکاوے میں نہ آئیں۔کولمبس نے امریکہ دریافت کیا اس جملے کو ایک شخص چند سیکنڈ میں اپنی زبان سے ادا کر سکتاہے،مگر اس واقعے کو ظہور میں لانے کے لئے کولمبس کو 20 سال صرف کرنے پڑے یہی اس دنیا میں کامیابی کا طریقہ ہے۔اس دنیا میں ہر کامیابی طویل المدتی محنت مانگتی ہے اس کے بغیر یہاں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ نیل آرم اسٹرانگ پہلا شخص ہے، جس نے چاندپر قدم رکھا۔ 21 جولائی 1969ء کو انہوں نے ایگل نامی چاند گاڑی سے اتر کر چاند کی سطح پر اپنا قدم رکھا۔ اس وقت سے زمین اور چاند کے درمیان برابر مواصلاتی رابطہ قائم تھا، چاند پر اترنے کے بعد اس نے زمین والوں کو جو پہلا پیغام دیا وہ یہ تھا کہ ایک شخص کے اعتبار سے یہ ایک چھوٹا قدم ہے،مگر انسانیت کے لئے یہ ایک عظیم چھلانگ ہے۔ ایک شخص کے بحفاظت چاند پر اترنے سے یہ ثابت ہو گیا کہ وہ وقت آئے گا جب عام لوگ ایک سیارہ سے دوسرے سیارے تک اسی طرح سفر کرنے لگیں گے، جس طرح وہ زمین پر کرتے ہیں۔ہر بڑا کام اسی طرح ہوتا ہے۔ ابتدا میں ایک فرد یا چند افراد قربانی دے کر ایک دریافت تک پہنچتے ہیں۔
اس طرح وہ دوسرے انسانوں کے لئے ایک نیا راستہ کھولتے ہیں۔ یہ ابتدائی کام انتہائی مشکل ہے وہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے کھسکانے کے برابر ہے مگر جب یہ ابتدائی کام ہو جاتا ہے تو اس کے بعد سارا معاملہ آسان ہو جاتا ہے۔ بس اس کے لئے زیادہ ہمت جرأت حوصلے لگن اور ولولے کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا۔ بس نا ممکن اور ممکن کے درمیان فاصلے کو طے کرنے کے لئے آپ کو اپنے اندر دوسروں سے زیادہ ہمت جرأت پیدا کرنی ہوتی ہے۔ پاکستان کے حالات بھی تقاضا کرتے ہیں کہ مفاد پرستی، خود غرضی، دھڑے بندی، پارٹی مفاد کو چھوڑ کر ذاتیات کے جھگڑے چھوڑ کر مشکلات پر قابو پایا جائے۔ قیصر ولیم دوم 1888ء سے لے کر 1918ء تک جرمنی کا بادشاہ تھا قیصر ولیم ہی کی غیر مدبرانہ سیاست کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم چھڑی اس میں ایک طرف جرمنی اور اس کے ساتھی تھے اور دوسری طرف برطانیہ اور اس کے ساتھی آخر کار جرمنی کو شکست ہوئی اور اس کے ساتھ قیصر ولیم کی حکومت ختم ہو گئی قید اور قتل سے بچنے کے لئے اس نے ملک چھوڑ دیا اور خاموشی سے زندگی کے دن گزارتا رہا۔ 1941ء میں وہ مر گیا۔ پہلی جنگ عظیم سے کچھ پہلے کا قیصر ولیم سرکاری دورے پر سوٹزر لینڈ گیا وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ سوٹزر لینڈ اگر چہ چھوٹا ملک ہے مگر اس کی فوج بہت منظم ہے اس نے ملاقات کے دوران سوٹزرلینڈ کے ایک فوجی کو مزاحیہ انداز میں پوچھا کہ جرمنی کی فوج تمہاری فوج سے دگنی ہے۔
اگر تمہارے ملک پر وہ حملہ کر دے تو تم کیا کرو گے۔ اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔ سر ہمیں ایک کے بجائے دو فائر کرنے پڑیں گے۔ سوئس فوجی کا یہ چھوٹا سا جملہ ایک بہت بڑی حقیقت کا اعلان ہے۔ وسائل اگر کم ہوں تو کارکردگی کی زیادتی سے آپ اس کی تلافی کر سکتے ہیں۔ آپ کی تعداد اگر دشمن، فریق کی تعداد سے نصف ہے تو آپ دگنی محنت کر کے زندگی کے میدان میں اس کے برابر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن اور دشمنوں سے واسطہ ہے اور اسلامی دنیا کے چند ممالک بھی پاکستان کا ساتھ نہیں دے رہے۔ ان کی وجوہات کئی ہو سکتی ہیں۔یہ ایک لمبا پراسس ہے۔