حکومت نے کس ادارے سے جہانگیر ترین کے گھر کی جاسوسی کروائی ؟ تہلکہ خیز انکشاف منظرعام پر
لندن (ویب ڈیسک)تحریک اںصاف کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر خان ترین کی اپنی ہی پارٹی کی حکومت نے جاسوسی اور نگرانی کرائی اور اس کیلئے حکومت کے ماتحت دو سرکاری ڈیپارٹمنٹس کو استعمال کیاگیا تاہم وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے ایسے الزامات کو مسترد کردیا۔
دی نیوز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ دو سرکاری محکمے، جو کسی دفاعی تنظیم یا مسلح افواج سے منسلک نہیں نے جہانگیر ترین، ان کی فیملی کی سرگرمیوں اور کاروباری معاملات کی کئی ہفتوں تک نگرانی کی ۔ایک محکمہ کو تفتیش کا اختیار بھی حاصل ہے اور دوسرے کو نگرانی کی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت ہے ۔
ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد اور لودھراں میں جہانگیر ترین کی رہائش گاہوں کے ساتھ ساتھ ان کی شوگر ملوں اور دیگر کاروباری مفادات کی نگرانی کی گئی، سیاست دانوں ، تاجروں اور دوستوں سے ملاقاتوں سمیت ترین کی سرگرمیوں کی نگرانی کی گئی اور ان کے فون کالز ٹیپ کیے گئے جبکہ گھر کے تمام افراد کی فون کالز ریکارڈ کی گئیں۔کچھ ہفتے قبل ان کی شوگر ملز پر چھاپہ مار کر ریکارڈ بھی قبضے میں لیا گیا تھا لیکن یہ واضح نہیں کہ اس چھاپے کا اس نگرانی سے کوئی تعلق ہے یا نہیں تاہم جہانگیر ترین کے ایک قریبی دوست نے بتایاکہ کاروباری شخصیت کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے کوئی خطرہ ہوتا ہے کہ نگرانی سے کیا حاصل ہوگا کیونکہ ان کی تمام تفصیلات اور کھاتوں کا ریکارڈ پاکستان کے متعلقہ اداروں کے پاس بھی پہلے سے موجود ہوتا ہے ۔
جب جہانگیر ترین سے ان کے اہل خانہ اور ان کے کاروبار کی نگرانی کے سلسلے میں سوالات پوچھے گئے تو وہ تفصیلات میں نہیں گئے لیکن انہوں نے اپنے اہل خانہ کی نگرانی سے بھی انکار نہیں کیا اور کہا کہ انہیں بلا وجہ نشانہ بنایا گیا اور انھیں بدنام کیا گیا، وزیر اعظم ہاؤس میں ایک گروپ نے ان کے اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین غلط فہمی پیدا کرنے کے لئے سب کچھ کیا ہے۔ اس سے پہلے ترین وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری اعظم خان پر ان کے خلاف غلط معلومات اور ہراساں کرنے کی مہم کی قیادت کرنے کا الزام عائد کرچکے ہیں تاہم جہانگیر ترین کے قریبی تحریک انصاف کے کچھ رہنمائوں نے اسد عمر، شہزاد اکبر ، شاہ محمود قریشی اور زلفی بخاری کا نام بھی لیا جو جہانگیر خان ترین کے مخالف گئے تاہم ان تمام لوگوں نے الزامات کی تردید کی ۔
اس ضمن میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر جو کہ ایسٹ ریکوری یونٹ اور ایف آئی اے میں اثر ورسوخ رکھتے ہیں، نے تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ جاسوسی کے الزامات کی خبر انہی کے لیے تھی۔شہزاد اکبر نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ شوگر کمیشن انکوائری میں جن لوگوں کے نام آئے ، تمام تحفظات انہی لوگوں کے ہیں، مختلف عدالتوں میں بھی جاچکے ہیں اور عدالتوں نے ان کے حق میں کوئی حکم نہیں دیا، یہ صرف افسانوی کہانیاں ہیں۔
دوسری طرف جہانگیرترین کے قریبی سمجھے جانیوالے پارٹی قائدین کے مطابق وزیراعظم کے قریبی گروپ جہانگیر ترین کی موجودگی نہیں چاہتا کیونکہ ان کی کاروباری سوچ اور چیزوں کو چلانے کی صلاحیت ہے ، تحریک انصاف کے رہنما راجہ ریاض، پرویز خٹک ، اسد قیصر اور فواد چودھری کھلے عام جہانگیر ترین کی حمایت میں بول چکے ہیں۔فواد چودھری کاکہناتھاکہ وہ نگرانی کے معاملات کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے لیکن وہ جہانگیر ترین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ترین نے پارٹی کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور جہانگیر ترین کے بغیر ہم اس مقام تک پہنچ سکتے تھے جہاں ہم آج ہیں۔