صنفی استحصال کا شکار دیہی خواتین
15اکتوبر کا دن دن گاؤں، دیہاتوں میں بسنے والی خواتین کے حوالے سے بھی منسوب ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے رورل ایریاز میں موجود عورتیں رول ماڈل ہیں، عزم و ہمت، برداشت، حوصلے اور صبر کا مجسم پیکر ہیں۔ دیہی علاقوں میں موجود زیادہ تر خواتین کھیتی، باڑی اور سینے، پرونے کے کام سے وابستہ رہتی ہیں، پسماندہ طبقات میں شامل یہ عورتیں مردوں کے مقابلے کہیں زیادہ کام کرتی نظر آتی ہیں، بچوں کو بھی سنبھالتی ہیں، اور گھر، گرہستی کو بھی!!لیکن ہمارے ہاں ضرورت جس بات کی محسوس کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ د یہی علاقوں میں موجود مرد وں کی اکثریت کو سنبھالا جائے، وہ سنبھل جائیں تو پھر چا ئے، سگریٹ اور گٹکا وغیرہ کھانے او ر گلی، کوچوں اور چوراہوں پر ہر وقت کی گپ،شپ لگا نے میں خاصی کمی واقع ہو جائے اور انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوں، بھئی یہ نا انصافی ہی تو ہے کہ عورتیں محنت، مشقت کریں، گھر سنبھالیں، بچوں کی پرورش کریں اور پھر اپنے فارغ شوہروں سے جوتے بھی کھائیں!! ناانصافی سے یاد آیا کہ پسماندہ علاقوں میں بسنے والی خواتین شروع ہی سے حقوق کی فراہمی کے معاملے میں بڑی بدقسمت نظر آتی ہیں، بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت حاصل رہتی ہے، نہ وہ اچھا کھا، پی پاتی ہیں نہ انہیں بہتر ماحول میسر آتا ہے، لڑکیوں کو یا تو تعلیم دلوائی ہی نہیں جاتی یا پھر چار،چھ کلاسیں پڑھوا کر چھوٹے پن میں ہی اُن کی شادیاں کر دی جاتی ہیں، اور پھر ہر سال بچوں کو جنم دیتی یہ دیہی خواتین خون کی کمی، او ر سرکاری اسپتالوں میں بدانتظامی کی زیادتی کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہتی ہیں، آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ اچانک سے سرکاری اسپتال بیچ میں کہاں سے آ گئے؟ وہ اس لیے آگئے کہ آپ لوگوں کو تو پتہ ہی ہے کہ غربت زدہ علاقوں میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کو صحت کے مسائل کا سامنا ہے، دیہی علاقوں میں موجود کلینک نما اسپتال کھانسی، نزلہ، بخار کا علاج تو شاید کردیتے ہوں لیکن بڑی، بڑی جان لیوا بیماریاں غریبوں کی جان لے کر ہی ٹلتی ہیں،
خطر ناک بیماریوں کا علاج اندرونی اضلاع میں ہوتا،ممکن نظر نہیں آتا، اسی لیے مریضوں کو بیرونی راستہ یعنی بڑے شہروں میں جانے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے، اور پھر شہروں کے سرکاری اسپتالوں میں ان بیچاروں پر کیا گزرتی ہے،یہ تو غریب مریض یا انکے ورثاء ہی بتا سکتے ہیں لیکن میڈیا جب صحت کے شعبے کو جاری اربوں، کھربوں کے فنڈز کے بارے میں بتاتا ہے، تو یقین مانیے، بالکل یقین نہیں آتا!!
اسی بے یقینی کی سی کیفیت میں رہتے ہوئے کچھ بات پاکستان میں حالیہ بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب پر بھی کر لیتے ہیں، سیلاب سے پسماندہ دیہی علاقوں میں ہزاروں مکان زمین بوس ہوگئے، بے گھر سیلاب متاثرہ خواتین کی زندگی ڈھے جانے والے اُن کے جھونپڑی نما آشیانوں میں پہلے ہی اذیتوں اور مصیبتوں کا شکار تھی، پھر جب وہ کچے گھر بھی نہ رہے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اب اُن بے بس، مجبور اور لاچار عورتوں پر کیا بیت رہی ہوگی!! خاص طور پر جِلد اور پیٹ سے متعلق بیماریاں پھیل رہی ہیں، واٹر، سینی ٹیشن اور ہا ئجین سے جُڑے معاملات جنم لے چکے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق صرف سندھ میں ساڑھے نو ہزار سے زائد خواتین حاملہ ہیں جبکہ کیمپوں میں جنم لینے والے بچوں کی تعداد چار ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے، سیلاب متاثرین میں موجود کم عمر بچے، بچیوں کی شادیاں کروائے جانے کی خبریں بھی سننے میں آرہی ہیں، ایک انگریزی اخبار میں لڑکیوں کے بیچے جانے سے متعلق خبر شایع ہو چکی ہے، اور سکھر کی وہ 6 سالہ معصوم بچی تو آپ کو یاد ہی ہوگی کہ جو بھوک اور بیماری سے لڑتی جنگ ہار گئی تھی یہ کیسا سیلاب تھا جو حاملہ ماؤں اور بیمار بچوں کو کیمپوں سے اسپتال نہ لے جاسکا؟؟ بھوکوں کو ایک وقت کا کھانا نہ کھِلا سکا، بچوں کی شادیاں اور اُنکی خریدوفروخت نہ رکوا سکا!!۔
خیر یہ سب باتیں تو ہوتی رہیں گی، لیکن سوچنا یہ ہے کہ اب ہونا کیا چاہیے؟تو ہونا تو سب سے پہلے یہ چاہیے کہ اچھی اور معیاری غذا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ سیلاب متاثرین کو فوری طور پر صحت کی سہولتیں بھی فراہم ہوں تو مزید اموات کا سلسلہ تھم سکتا ہے، خواتین کو لائف سیونگ اسکلز پر تربیت دینا بھی ضروری سمجھا جائے تو کسی بھی آفت اور ایمرجنسی جیسی صورتِ حال میں وہ سب سے پہلے اپنی زندگیاں بچانے میں کامیاب ہو جائیں، اور پھر آگے اور بھی کام ہوتے رہیں، اسی طرح سے حکومتی سطح پر بہت بڑے پیمانے پر ایسے ٹھوس اقدمات عمل میں لائے جانے کی فوری ضرورت ہے کہ جن سے ہمارے معاشرے میں موجو د دیہی عورتوں کو بھی اُنکے تمام تر حقوق با آسانی فراہم ہوں، صنفی استحصال ختم ہو تو وہ خوش و خرم زندگی بسر کر سکیں، اور ملکی ترقی میں بھی ا پنے، اپنے حصے کا کردار ادا کر سکیں۔