بہر کیف وہ صدر پاکستان ہیں...!!!
صدر پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی بھلے آدمی ہیں...انٹرویو وہی ہے جو انہوں نے سینئرصحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کو دیا... باقی سب وضاحتیں ہیں اور بعض وضاحتیں "مشکوک "ٹھہرتی ہیں... سماج کا مطالعہ بتاتا ہے کہ صحبتیں مزاج بدل دیتی ہیں.... عارف علوی صاحب نے بھی اپنے پارٹی قائد کی طرح "یو ٹرن" ہی لیا....لیکن "الٹے پاؤں" مڑنے کو "سیاق و سباق" کا جامہ پہنا دیا... اسے آپ "کراچی اسٹائل " بھی کہہ سکتے ہیں... عاصمہ شیرازی اچھی شہرت والی معتبر صحافی ہیں....انہوں نے جناب مجیب الرحمان شامی کے ساتھ گفتگو میں واضح کیا کہ جناب صدرکے انٹرویو میں کسی قسم کی قطع و برید نہیں کی گئی.......پھر کون سا سیاق و سباق اور کون سی توڑ مروڑ ؟؟؟
مکرر عرض ہے کہ "سیاق و سباق" بگڑنے کا رواج گیا... کوئی زمانہ ہوتا تھا کہ جب صحافت صرف "قلم و قرطاس" کے ذریعے ہوتی تھی.....تب لفظ کی حرمت کی قسمیں کھائی جاتی تھیں... سیاستدان اس وقت جب اپنی کسی بات سے مکرتے تو کہہ دیتے کہ ہماری گفتگو" سیاق و سباق "سے ہٹ کر چھاپی گئی ہے.....تب لوگ بھی یقین کر لیتے تھے کہ اخبار نویس کے پاس بھی سوائے "شارٹ نوٹس "کے کوئی ثبوت نہیں ہوتا تھا...پھر ٹیپ ریکارڈر آگیا اور سیاستدانوں کا سیاق و سباق قدرے ٹھیک ہونے لگا.......الیکٹرانک میڈیا آنے کے بعد تو سیاق و سباق "صراط مستقیم" پر آگیا.... ڈیجیٹل زمانے نے تو "نیتاؤں" سے سیاق و سباق سے ہٹنے کا تکیہ کلام چھین لیا... اب اپنے بیانیے یا اپنی بات سے مکرنے کی بات کرتے ہیں تو ان کی گفتگو سے مزین "ویڈیو کلپ" چل جاتا ہے اور وہ آئیں بائیں شائیں کرکے جان چھڑاتے ہیں.. سیاستدانوں کے لیے میڈیاپر خفت سے بچنے کا اب ایک ہی راستہ بچا ہے کہ سوچ کر بولا کریں......انگریزی محاورہ بھی یہی ہے کہ پہلے سوچو پھر بولو.....
صدارت بڑا با وقار منصب ہے.....افسوس کہ سیاسی جماعتوں نے ہوس اقتدار میں یہ" مسند" بھی آلودہ کردی ......حلف کے بعد صدر پاکستان سربراہ مملکت قرار پاتے ہیں.....پھر وہ کسی جماعت کے رہنما نہیں ملک کے صدر ہوتے ہیں......پھر وہ اپنے قائد نہیں قائد اعظم کے پاکستان سے وفاداری کے پابند ہوتے ہیں....مگر اقتدار کا المیہ یہ ہے کہ لوگ آنکھ جھپکتے ہی قانون قاعدے اور عہد و پیمان بھول جاتے ہیں...وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے اور ان کا فرمایا حرف آخر کہلاتا ہے......یہی وہ" نکتہ" ہے جو ان کے زوال کا "نقطہ آغاز" ہوتا اور وہ "قصہ پارینہ" بن جاتے ہیں.....
"کراچی اسٹائل" سے یاد آیا کہ 2013 ء کی بات ہے ایک بڑے میڈیا گروپ کے شام کے اخبار کی لانچنگ کیلئے ہنگامی طور پر ادارتی ٹیم کیساتھ کراچی جانا پڑا....بزرگ صحافی جناب خالد چودھری،جناب اطہر عارف مرحوم ،شمیم صدیقی مرحوم ،عبدالرزاق شاہین اور عبدالجبار شاکر بھی" وقفے وقفے "سے" رہبر قافلے" میں شامل تھے...ہمارے پاس نیوز روم کے معاملات کی نگرانی کا ٹاسک تھا......پہلے ہی روز نیوز ڈیسک کے دوستوں سے تعارفی نشست میں" نیوز ایڈیٹر صاحب" سے پوچھا بھائی !کراچی سے اخبار کی کامیابی کا کیا بہترین طریقہ ہو سکتا ہے......؟انہوں نے" فی البدیہہ" من پسند فارمولہ پیش کرتے ہوئے کہا کچھ خاص نہیں یہاں تو بس "بھائی "کی تصویر بکتی ہے.....لیڈ کے دائیں یا بائیں طرف تصویر لگاؤاور جتنا مرضی اخبار بیچ لو.......میں مسکرایا تو انہوں نے "تیوڑی" چڑھا کر سمجھایا کہ یہ پنجاب نہیں کراچی ہے کراچی اور کراچی کا اپنا" اسٹائل" ہے..... ہم نے کہا کہ بھائی سب باتیں درست لیکن تصویر ہمیشہ تو نہیں بکتی .....آج نہیں تو کل اس بد قسمت شہر کی تصویر بدلے گی.....ہم" بھائی" کی تصویر کے بغیر ہی اخبار بیچیں گے.....انہوں نے پھر "وارننگ" کے انداز میں کہا کہ دیکھ لیں بھائی کراچی کا اپنا "اسٹائل "ہے.....
"نیوز ایڈیٹر بھائی" کی بات سچی تھی کہ اس زمانے میں بھی "بھائی" کے رات گئے خطاب کی کوریج تک کراچی کے اخبارات کی کاپی پریس نہیں جا سکتی تھی.....لاہور کے سنٹرل نیوز روم میں قائم کراچی ڈیسک پر" اسی تقریر" کے انتظار میں کبھی کبھی فجر کی اذان دفتر میں ہی ہو جاتی تھی.. خیر ہمارا شام کا یہ شاندار اخبار شروع ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے خوب پذیرائی پانے لگا......ویسے تو" نیوز ایڈیٹر بھائی" کی کم ہی چلتی مگر وہ موقع پاتے ہی "بھائی" کی تصویر چھاپنے کا جواز پیدا کر لیتے.....کبھی کبھی یہ تصویر چھپتی بھی مگر مجموعی طور پرہم نے اس تصویر کے بغیر ہی یہ اخبار بیچا اور خوب بیچا........"نیوز ایڈیٹر بھائی"نے" حالات "دیکھ کر تصویر کی گردان تو کم کر دی مگر بات بات پر" یہ کراچی اسٹائل ہے "کی رٹ لگا کر اپنا بوجھ ہلکا کر لیتے....وہ" الف" کا ڈنڈا پکڑے رہتے اور جہاں" الف" کی خلاف ورزی ہوتی سب ایڈیٹرز کی ایسی تیسی پھیر دیتے کہ یہ پنجاب نہیں کراچی ہے......موصوف اپنی ہر غلطی "یہ کراچی اسٹائل ہے"کے "تکیہ کلام "کے" تکیے" نیچے چھپانے کے ماہر تھے....وہ اپنے "اختیارات" استعمال کرتے ہوئے شام کے اخبار کو زندگی بخشنے والی تیز سرخیاں بیک جنبش قلم کالعدم قرار دیتے جاتے اور اپنے مزاج سے ہم آہنگ ڈھیلی ڈھالی سرخیوں کی خود ہی تعریف فرماکر اوکے کر دیتے....ہم حسب معمول ٹوکتے تو کہتے "یہ کراچی اسٹائل ہے"........کبھی مان جاتے تو کبھی اڑ جاتے.....ہم بھی گنجائش کے مطابق سمجھوتہ کر لیتے کہ کہیں "لاہور کراچی مناظرے" میں کاپی ہی لیٹ نہ ہو جائے.....
جناب خالد چودھری اور اطہر عارف صاحب کے بعد کوئی اڑھائی دو مہینے بعد ہماری بھی واپسی ہوئی تو ہم نے "نیوز ایڈیٹر بھائی "سے" الوداعی معانقہ" کرتے ہوئے سرگوشی کی کہ حضور والا !غلطی کوتاہی کی معافی....ہم نے آپ کے "بھائی" کی تصویر نہ بیچ کر آپ کے جذبات" مجروح" کیے لیکن سچی بات یہی ہے کہ "بھائی" ہوں یا کوئی اور،کسی کی تصویر سدا نہیں بکے گی کہ یہی قانون قدرت ہے......
"نیوز ایڈیٹر بھائی" تو صرف ایک حوالے کے طور پر یاد آگئے حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کے ہر حصے میں ہر کسی کا اپنا اپنا "بھائی" اور اپنا اپنا" بابا" ہے جس کی تصویر بیچتے بیچتے ہما شما زندگیاں بتا دیتے ہیں.....قیام پاکستان سے اب تک یہ "للکار اور یلغار "سوائے" تصویر فروشی" کے اس جھگڑے کے کچھ نہیں...
ہمارے خیال میں صدر عارف علوی نے محترمہ عاصمہ شیرازی کو انٹرویو میں اپنے منصب کے شایان شان گفتگو کی........وہ اتنے خوشگوار موڈ میں تھے کہ بات کرتے اور قہقہہ لگادیتے.....انہوں نے اتنے قہقہے لگائے کہ سنجیدہ فکر اینکر پرسن کو بھی کبھی کبھی تکلف کے طور پر زیر لب مسکرانا پڑا......انہوں نے عمران خان کی" ہارڈ لائن" کے برعکس "متوازن پیرائے" میں اظہار خیال کیا......گویا یہ ایک نیوٹرل صدر کا نیوٹرل انٹرویو تھا.....
انہوں نے سائفر پر دو ٹوک انداز میں کہا کہ میں اس بات پر قائل نہیں ہوں کہ سازش ہوئی....انٹرویو میں یہی بات تھی جس کا اکناف عالم میں خوب چرچا ہوا.......پھر وہی ہوا جس کا ہمارے ہاں معمول ہے.....اگلے ہی دن ایوان صدر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صدر عارف علوی کے بیان کو مکمل طور پر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا..... صدر نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ان کے الفاظ کو ایک انتہائی سنجیدہ معاملے پر توڑ مروڑ کر پیش گیا جس سے سنگین مضمرات ہوئے.....اس سے اگلے دن وسیم بادامی کو "ارینجڈ انٹرویو" میں بھی جناب صدر نے سیاق و سباق کی گردان کی.....انہوں نے پہلو بدلا اور کہہ دیا کہ میں بڑی حد تک قائل ہوں کہ سازش ہوئی......
سچ یہ ہے کہ جناب عارف علوی سیدھی سادی بات کرکے منحرف ہو گئے ہیں.....محترمہ عاصمہ شیرازی کو انٹرویو کے دوران وہ یکسو تھے اور ان کے لہجے میں صدر پاکستان کی جھلک نمایاں تھی.....وسیم بادامی کے ساتھ "وضاحتی گفتگو" میں وہ منتشرالخیال اور واضح طورپر تحریک انصاف کے صدر دکھائی دے رہے تھے....!!!ہمارے خیال میں وہ صاف چھپنا بھی نہیں سامنے آنا بھی نہیں چاہتے.....جماعتی مجبوریاں اپنی جگہ....بہر کیف وہ صدر پاکستان ہیں!!!!
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں