ئتحریک انصاف: دعوے اور کارکردگی
2013کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ’’تبدیلی‘‘ اور ’’نئے پاکستان‘‘ کے دعوے اور وعدے کئے،جنہیں خیبرپختونخوا میں خاطر خواہ پذیرائی ملی۔عمران خان کی تحریک انصاف کو صوبے میں مخلوط حکومت بنانے کا موقع ملا، چیف منسٹر پرویز خٹک کے حلف اٹھاتے ہی خان صاحب نے بلند بانگ دعوے شروع کر دیئے کہ ہم صوبے کو مثالی بنائیں گے اور ہر محکمے اور ادارے میں ایسا نظام نافذ کیا جائے گا، جس کی نظیر ملکی تاریخ میں نہیں ملتی۔
لیکن ابتدائی برسوں میں بہت سا وقت خان صاحب کی دھرنا سیاست اور دھاندلی کے بے بنیاد الزامات کی نذر ہو گیا۔خان صاحب کے دعوے اور وعدے اُن کے گلے پڑتے رہے،جس ایشو پر وہ مسلم لیگ(ن) کی وفاقی حکومت یا صوبائی حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے وہی مسئلہ ان کے اپنے صوبے میں ان کے گلے پڑ جاتا،یہاں تک کہ گزشتہ دنوں بی بی سی سے انٹرویو میں خان صاحب اپنی حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہتے سنائی دیئے کہ اللہ پاک کا شکر ہے کہ2013ء میں ہمیں وفاق میں حکومت نہ ملی ورنہ وہاں بھی ’’خیبرپختونخوا‘‘ کی طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا۔ خان صاحب کے بقول پرویز خٹک کے سوا تمام لوگ نئے تھے جنہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ حکومتی امور کیسے چلتے ہیں۔
ان چار برسوں میں خان صاحب کی توجہ خیبرپختونخوا میں بہتر حکمرانی کی بجائے وفاق میں محمد نواز شریف کی حکومت گرانے پر مرکوز رہی،اس کے لئے صبح شام جھوٹے الزامات کی بھرمار ہوئی۔اس سے جو وقت بچتا اس میں پنجاب حکومت کو نشانہ بنایا جاتا۔اس دور ان وہ آدھا وقت بھی اپنے صوبے کو دیتے تو انہیں اب اس طرح ناکامی کا کھلا اعتراف نہ کرنا پڑتا۔عوام نے پرویز خٹک کو نہیں عمران خان کو ووٹ دیئے تھے۔ان چار سال میں خیبرپختونخوا حکومت ایک میگا پراجیکٹ بھی لانچ نہیں کر سکی،تکمیل تو دور کی بات ہے، حال ہی میں ڈینگی نے پشاور پر حملہ کیا،جس میں تیس سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں،جبکہ سینکڑوں افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔محکمہ صحت نے اس پر خاطر خواہ توجہ نہ دی تو خیبرپختونخوا کے بلدیاتی نمائندے میڈیا پر آ کر وزیراعلیٰ پنجاب سے مدد مانگنے لگے تو پنجاب حکومت نے بھی پوائنٹ سکورننگ کی بجائے فوراً وزیر صحت عمران نذیر کی سربراہی میں سینئر ڈاکٹروں پر مشتمل ٹیم کو ہیلتھ موبائل یونٹس کے ساتھ روانہ کیا،مگر افسوس خیبرپختونخوا کے وزیر صحت اور حکومت نے پیشکش ٹھکرا دی اور سنگدلی کے ساتھ موبائل یونٹس کو کام نہ کرنے دیا نہ ہی اس ٹیم کو ہسپتال تک رسائی ملی۔اس کے باوجود ٹیم نے خود سے ہزاروں لوگوں کے فری ٹیسٹ کئے اور ان میں ادویات تقسیم کیں۔پنجاب سے جانے والے یہ ہیلتھ یونٹس اب محکمہ صحت خیبرپختونخوا کے پاس ہیں اور تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی کے لئے مخصوص وارڈز میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔60 روز کے لئے صوبے میں ہیلتھ ایمرجنسی کا نفاذ ہو چکا ہے۔دوسری طرف پشاور شہر کی صفائی ستھرائی کی حالت یہ ہے کہ عیدالاضحی کے بعد آلائشیں گلیوں اور سڑکوں میں پڑی ہیں جس سے تعفن اور مزید بیماریاں پھیلنے لگی ہیں۔
عمران خان کشکول توڑنے اور پاؤں پر کھڑے ہونے کی بہت بات کرتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہئے، لیکن اگر خود پی ٹی آئی حکومت کی طرف دیکھا جائے تو اس نے کشکول توڑ دیا،لیکن اپنی جھولی سب کے سامنے پھیلا دی ہے۔تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں معاشی ترقی اور خود انحصاری پر زور دیا گیا،لیکن حقائق دیکھے جائیں تو خیبرپختونخوا حکومت ایشیائی ترقیاتی بینک، ورلڈ بینک، یونیسف اور یورپی یونین سمیت مختلف اداروں سے53ارب روپے قرضہ، جبکہ 29ارب روپے امدادی مد میں وصول کر رہی ہے۔
صوبائی حکومت قرضوں اور گرانٹ کی صورت میں82 ارب روپے لے رہی ہے جبکہ صوبہ پہلے ہی قرضوں پر سود کی مد میں سالانہ8 ارب روپے ادا کر رہا ہے۔اس صورت حال میں خان صاحب کے مُنہ سے معاشی ترقی و خود انحصاری کے دعوے اچھے نہیں لگتے۔حکومت قرضے مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لئے لے رہی ہے۔
مثالی صوبہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو خیبرپختونخوا حکومت کی شاہ خرچیاں نظر آتی ہیں۔ابھی وزیراعلیٰ ہاؤس کے لئے دو کروڑ روپے کی لاگت سے سوئمنگ پول بنانے کی منظوری کی خبر آئی۔ایک ارب درخت لگانے کے پراجیکٹ میں بھی بڑے گھپلے کھل رہے ہیں،صوبے کے لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن پراجیکٹ میں44کروڑ روپے کی بے قاعدگیاں سننے میں آ رہی ہیں۔اس کے علاوہ صوبے میں تعلیمی اصلاحات اور پٹوار کلچر کا وہی گھسا پٹا نظام نظر آتا ہے۔ کہیں بھی ’’تبدیلی‘‘ یا ’’نئے پختونخوا‘‘ کی جھلک دکھائی نہیں دیتی تعلیم و صحت کے حوالے سے شور مچانے والے کے اپنے صوبے میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ بارش کے دوران آئی سی یو کی چھت ٹپکنا شروع کر دیتی ہے اور ڈاکٹر اس حالت میں اپنے کام جاری رکھتے ہیں۔ سرکاری سکولوں کا بھی بہت برا حال ہے۔خود صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان کے اپنے آبائی شہر مردان میں سکولوں کی حالت دیکھ کر یہاں کے طلبا پر ترس آتا ہے۔
کیا لوگ مخالفین پر الزام تراشی یا گالم گلوچ پر ہی ووٹ دیتے ہیں؟ نہیں ایسا نہیں۔خیبرپختونخوا کے عوام شدید احتساب کرتے ہیں جیسے انہوں نے2008ء میں ایم ایم اے،پھر2013ء اے این پی اور پی پی پی کا کیا۔ 2018ء میں تحریک انصاف بھی اسی انجام سے دوچار ہو گی۔اب وقت بچا ہی کتنا ہے؟ ایک سال سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے عام انتخابات میں،لیکن خیبرپختونخوا میں مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔
خان صاحب کے واضح دو ٹوک اعتراف کا مطلب یہی ہے کہ ان میں اور ان کی جماعت میں حکومت چلانے کی صلاحیت نہیں۔اب ایک سال سے بھی کم عرصہ میں حکومت کون سا تیر مارلے گی؟ جس سے لوگ دوبارہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیں،ہم نے تو پہلے کہا تھا کہ کرکٹ کے کھیل اور سیاست میں فرق ہے، سیاسی میدان میں مدبرانہ سوچ، ذہنی پختگی، تجربہ اور کارکردگی ہی چلتی ہے۔