سی پیک کے منصوبوں پر نظرثانی نہ کرنے کا فیصلہ

سی پیک کے منصوبوں پر نظرثانی نہ کرنے کا فیصلہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان کے دفتر خارجہ نے قیاس پر مبنی اِن خبروں کو مسترد کر دیا ہے، جن سے یہ تاثر ملتا تھا کہ پاکستان سی پیک کے منصوبوں اور چین کے ساتھ کئے جانے والے معاہدوں پر نظرثانی کر رہا ہے، تاہم وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار نے کہا ہے کہ درآمدی کوئلے سے چلنے والے توانائی کے نئے منصوبے شروع نہیں کئے جائیں گے، ملکی کوئلے، پن بجلی اور شمسی توانائی کے منصوبوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی،درآمدی کوئلے سے چلنے والے منصوبے سی پیک سے نکال دیئے جائیں گے۔تاہم یہ واضح کیا گیا ہے کہ جاری منصوبے ختم نہیں کئے جائیں گے، پورٹ قاسم جیسے منصوبوں کو جاری رکھا جائے گا، گوادر کے 300 میگاواٹ کے درآمدی کوئلے کے منصوبے کو بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، گوادر کی ترقی اور خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کے لئے دیگر ممالک کو بھی پیشکش کی جائے گی، حکومت نے رحیم یار خان سمیت درآمدی کوئلے کے کئی منصوبے بند کرنے کا فیصلہ کا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ تھرکول منصوبے کو جاری رکھا جائے گا،سی پیک کے جاری منصوبوں کو بروقت مکمل کیا جائے گا۔انہوں نے یہ باتیں سی پیک کے جائزہ اجلاس کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بتائیں۔مقامِ اطمینان ہے کہ دفتر خارجہ اور وزیر منصوبہ بندی نے سی پیک کے منصوبوں کے بارے میں دو ٹوک اور واضح اعلان کر کے اِس سلسلے میں کی جانے والی قیاس آرائیوں کا باب بند کر دیا ہے، کیونکہ چند دِن پہلے ایک برطانوی اخبار میں جو رپورٹ شائع ہوئی اور جس میں وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤد کا انٹرویو بھی شامل تھا، اس کے بعد قیاس آرائیوں کا سلسلہ تیزی سے شروع ہو گیا تھا۔ اگرچہ مشیر عبدالرزاق داؤد کی جانب سے یہ تردید کی گئی کہ انٹرویو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تاہم ماضی میں اُن کے جو خیالات سامنے آ چکے تھے اُن کے پیش نظر انٹرویو کی یہ دو لفظی تردید ناکافی اور غیر تسلی بخش تصور کی گئی، ضرورت اِس بات کی تھی کہ اس سلسلے میں حکومت کا زیادہ واضح موقف سامنے آتا، جو اب دفتر خارجہ اور وزیر منصوبہ بندی کی جانب سے آ گیا ہے۔
سی پیک کے تحت جو منصوبے شروع کئے گئے تھے اُن میں سے بعض مکمل بھی ہو گئے ہیں اور توانائی کے جو منصوبے پیداوار شروع کر چکے ہیں اُن کی وجہ سے 12ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی سسٹم میں داخل ہو گئی،اِس وقت بجلی کا جو شارٹ فال ہے وہ اُن بجلی کمپنیوں کا پیدا کردہ ہے، جن کے پاس زیادہ بجلی پیدا کرنے کی استعداد موجود ہے،لیکن ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے پیداوار کم کر رکھی ہے۔یہ منصوبے جس طرح بھی شروع ہوئے انہوں نے بہرحال بجلی کی پیداوار میں اپنا حصہ ادا کیا،اِس لئے ضرورت اِس بات کی ہے کہ ان کا پہیہ چلتا رہے، ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ ایک منصوبہ شروع ہوتا اور پھر کسی نہ کسی وجہ سے اسے بند کر دیا جاتا اور یوں اس پر ہونے والی سرمایہ کاری بے کار چلی جاتی، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی بھی حکومت اگر کوئی منصوبہ شروع کرتی ہے تو اس پر اخراجات قومی خزانے سے ہی ہوتے ہیں،منصوبوں پر تاخیر کی وجہ سے ان کی لاگت بڑھتی ہے اور اس کے اثرات بھی خزانے اور قومی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ابھی گزشتہ روز ہی پاکستان سٹیٹ آئل کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ تیل کا جہاز زیادہ دیر تک کھڑا رکھنے کی وجہ سے پی ایس او نے گزشتہ سال بندرگاہ انتظامیہ کو20 ملین ڈالر ڈیمرج ادا کیا ہے۔یہ صرف ایک مثال ہے ایسے ہی بہت سے غیر ضروری اخراجات سرکاری اداروں میں کئے جاتے ہیں،جن کی تعداد اربوں تک پہنچ جاتی ہے اس کا نقصان قوم اور قومی خزانے کو ہوتا ہے،لیکن منصوبوں میں تاخیر کے ذمے داروں کو کوئی نہیں پوچھتا، اس جانب سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
چین نے62 ارب ڈالر کی مجموعی سرمایہ کاری سے سی پیک کا آغاز ایسے وقت میں کیا تھا، جب کوئی دوسرا مُلک پاکستان میں معمولی سرمایہ کاری کے لئے بھی تیار نہیں تھا،اس سرمایہ کاری میں 39ارب ڈالر صرف توانائی کے منصوبوں کے لئے تھے یہ وہ شعبہ تھا جہاں پاکستان کو سرمایہ کاری کی اشد ضرورت تھی،لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ سی پیک کے حوالے سے منفی پروپیگنڈے پر مبنی خبریں تسلسل کے ساتھ میڈیا میں پھیلائی گئیں، جس کا تازہ ترین مظاہرہ برطانوی اخبار کی حالیہ رپورٹ ہے،پروپیگنڈے کی اِس جنگ کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا،بھارت اس کے پیچھے ہے اور آئندہ بھی وہ ایسی منفی خبریں دُنیا کے کسی نہ کسی کونے میں پھیلا کر سامنے لاتا رہے گا،افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایسی کوئی خبر سامنے آتے ہی پاکستان کے اندر بعض حلقے بھی فوراً اِس منفی مہم کا حصہ بن جاتے ہیں اور اپنے پرانے دُکھوں کا تذکرہ لے بیٹھتے ہیں،بعض حلقے قرضوں کے حوالے سے چینی حکومت کہ ہدفِ تنقید بنانا شروع کر دیتے ہیں،حالانکہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے سرمایہ دُنیا میں کہیں بھی خیرات میں نہیں ملتا، اگر کوئی بادشاہ اپنے کسی دوست کو ڈیڑھ ارب ڈالر دے دیتا ہے تو وہ اس پر اپنا استحقاق بتا کر بیرونِ مُلک اپنے حساب میں جمع کرا کے عیش کرتا ہے،چین میں کوئی بادشاہت نہیں کہ پاکستان کے اندر اپنے کسی دوست کو اتنی خطیر رقم کا تحفہ دے دے، وہاں سے معقول شرائط پر قرض ملنا ہی غنیمت ہے اور اس قرض کو ترقیاتی منصوبوں پر درست طور پر خرچ کرکے اگر پیداوار شروع ہو جائے تو قرض بھی اترنا شروع ہو جاتا ہے۔
بہتر راستہ تو یہی ہے کہ قوم اپنے وسائل پر انحصار کرے اور قرضوں کا بوجھ کم کرے،لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ موجودہ حالات میں جب4000 ارب روپے بھی ٹیکس کی مد میں بڑی مشکل سے حاصل ہوتے ہیں، قرضوں کے بغیر کوئی بھی بڑا ترقیاتی منصوبہ کیسے شروع کیا جا سکتا ہے،جو لوگ قرضوں کی مذمت میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں وہ اِس جانب بھی توجہ دیں۔ امریکہ جیسی سپر پاور چین کی کھربوں ڈالر کی مقروض ہے اور وہاں بہت کم آوازیں ان کے خلاف اٹھتی ہیں، کبھی آپ نے امریکی میڈیا میں ان قرضوں کا ذکر سُنا؟ اگر سُنا ہو گا تو بہت ہی سرسری انداز میں، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ امریکی میڈیا ہر وقت چینی قرضوں کی مذمت میں اپنا پرائم ٹائم صرف کر دیتا ہو،اِن الفاظ سے کوئی یہ مفہوم اُخذ کرنے کی کوشش نہ کرے کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے قرض لینا ضروری ہے،مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے اوّل تو اپنے وسائل سے رقوم جمع کی جائیں جیسے آج کل ڈیم کے لئے کی جا رہی ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ اِس فنڈ میں عطیات جمع کروا رہے ہیں،لیکن اگر ملکی وسائل سے فنڈز دستیاب نہ ہوں تو پھر قرضوں کا حصول ناگزیر ہو جاتا ہے،اِس لئے اگر چینی حکومت کی طرف سے ملنے والے قرضوں کو ہدفِ تنقید، بلکہ ہدفِ ملامت بنانا ہے تو پہلے ملکی معیشت کے حوالے سے ساری صورتِ حال کا احاطہ کرنا ضروری ہے۔ لگژری گاڑیاں بیچ کر سی پیک کی طرح کے منصوبے نہیں بن سکتے۔
سی پیک کے منصوبوں کو جاری رکھنے کا اعلان خوش آئند ہے،کیونکہ اب یہ منصوبے جس مرحلے میں پہنچ چکے ہیں اِن کو روکنا کسی صورت قرینِ مصلحت نہیں ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان اور چین دونوں کی خواہش ہے کہ مزید ممالک اِس میں شامل ہوں، یہاں تک کہ یہ پیشکش تو بھارت کو بھی اس وقت کر دی گئی تھی، جب چین نے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کے سلسلے میں عالمی کانفرنس میں بھارت کو مدعو کیا تھا اس کانفرنس میں بتایا گیا کہ دُنیا کے60 سے زائد ممالک اِس منصوبے سے مستفید ہوں گے اور تین براعظم باہم مربوط ہوں گے، لیکن بھارت سیاسی وجوہ کی بنا پر اس کانفرنس اور اِس منصوبے سے دور رہا،بلکہ امریکہ کو بھی اس سے بدظن کرنے میں کردار ادا کیا،ان حالات میں یہ بہت ضروری ہے کہ سی پیک کے منصوبوں پر کسی منفی پروپیگنڈے کی پرچھائیں نہ پڑنے دی جائیں اور پوری قوم اُن عناصر سے ہوشیار رہے،جو سی پیک کی مخالفت کے پردے میں پاک چین تعلقات کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

مزید :

رائے -اداریہ -