سندھ میں پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سندھ حکومت کو چھیڑنے کا ارادہ نہیں، صوبائی خود مختاری پر آنچ نہیں آنے دیں گے، وفاق، سندھ حکومت کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا، انہوں نے بلاول بھٹو سے کہا کہ اُن کے سیاسی سفرکی شروعات ہیں وہ جذبات یا کسی کے دباؤ میں آ کر سندھو دیش کی بات نہ کریں، مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کے احتجاج سے تاثر گیا کہ مسئلہ کشمیر پر پروڈکشن آرڈر کو فوقیت ہے، اپوزیشن پروڈکشن آرڈر کے معاملے پر عدالت جانا چاہتی ہے تو جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سندھ کے ارکانِ اسمبلی کے ذہنوں میں کوئی تشویش نہیں ہونی چاہئے، ہمارے دل میں آئین کا احترام تھا، ہے اور رہے گا، وفاقی حکومت صوبائی خود مختاری پر کوئی آنچ نہیں آنے دے گی، وہ قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دے رہے تھے۔
وزیر خارجہ نے سندھ میں صوبائی خود مختاری کے حوالے سے جو باتیں کہی ہیں وہ اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں، لیکن سندھ حکومت کے بعض وزراء اور ارکانِ اسمبلی کے ذہنوں میں اس حوالے سے جو تشویش موجود ہے وہ اسی صورت دور ہو گی، جب وفاقی حکومت اُن خیالات پر عمل بھی کرے جن کا اظہار وزیر خارجہ نے قومی اسمبلی میں کیا، لیکن عملاً تو صورتِ حال یہ ہے کہ بعض وفاقی وزراء کسی نہ کسی بہانے سندھ حکومت کے خلاف بیان بازی کرتے رہتے ہیں اور کراچی میں کچرے کے معاملے پر سیاست کا جو بازار گرم ہے اِس حوالے سے سندھ حکومت کی مبینہ ناکامیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ایک وفاقی وزیر اگر صوبائی حکومت ختم کرنے کی بات کرتے ہیں تو جواب میں انہیں بھی صوبے کے کسی وزیر سے جلی کٹی سننی پڑتی ہیں اس کا بہترین حل تو یہی ہے کہ وفاق اور صوبہ آئین کے مطابق چلیں، بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آئین کی بہت سی شقوں پر نہ تو وفاقی حکومت عمل کرتی ہے اور نہ صوبائی حکومت، لیکن جب الزام تراشی کی بات آتی ہے تو ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے، چند دِنوں سے کراچی کے معاملات کی ”اصلاح“ کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل149 کا بڑا حوالہ دیا جا رہا ہے اور یہ حوالہ بعض آئینی و قانونی ماہر بھی دیتے ہوئے نہیں ہچکچاتے، حالانکہ یہ آرٹیکل پورے صوبے کے متعلق ہے، کسی ایک شہر کے متعلق نہیں، لیکن یار لوگوں کی آئین فہمی نے اسے کھینچ تان کر کراچی کے احوال کی درستی پر مرکوز کر دیا ہے۔
آئین کی ایسی ہی من مانی تشریحات بعض دوسرے امور میں بھی کی جاتی ہیں، جن کی وجہ سے ناخوشگوار بحثیں بھی جنم لیتی ہیں، دنیا بھر میں جو کام میئر کرتا ہے حیرت کی بات ہے کہ کراچی کا میئر اس سے تو گریزاں ہے، لیکن باقی وہ سارے کام کرنے کے لئے آمادہ ہے، جو میئر کی ذمے داری کی ذیل میں نہیں آتے، پھر اکثر و بیشتر تان اس بات پر توڑی جاتی ہے کہ شہر کے مسائل اس لئے ہیں کہ ان کے حل کے لئے وسائل نہیں، حالانکہ اگر نیک نیتی سے مسئلہ حل کرنا مقصود ہو تو کم وسائل کے باوجود بہتر نتائج دکھائے جاسکتے ہیں، دُنیا بھر میں وسائل تو ہمیشہ محدود ہی ہوتے ہیں، لامحدود نہیں ہوتے، لیکن اگر محدود وسائل کی لوٹ سیل لگا دی جائے اور ان سے بھی ایسے مطلوبہ پراجیکٹ شروع نہ کئے جائیں جو اتنی رقم میں آسانی سے شروع کئے جا سکتے ہیں تو ظاہر ہے نتیجہ اچھا نہیں ہو گا، بہتری اسی وقت آئے گی جب وسائل دیانتداری سے خرچ کئے جائیں گے اور خوردبرد نہیں ہو گی۔
کراچی کے مسائل سالہا سال کی سیاسی اُلجھنوں اور پیچیدگیوں کی وجہ سے اگرچہ گھمبیر ہو گئے ہیں، لیکن پھر بھی ان کا حل نکالا جا سکتا ہے اور شہر کو پھر سے کچرا منڈی کی بجائے ایک صاف ستھرا شہر بنایا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لئے پختہ سیاسی عزم اور نیت صاف ہونا ضروری ہے اگر شہر کی صفائی کے نام پر جلی اور خفی سیاست ہو گی تو مسائل اپنی جگہ رہیں گے اور شہر کی صفائی کے نام پر سیاسی کاریگریاں ہوتی رہیں گی، جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ”وفاقی مداخلت“ کے بغیر سندھ کے دارالحکومت کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی اور وہ آرٹیکل149 کا انطباق صرف کراچی پر کرنے کے لئے دور دور کی کوڑیاں لاتے ہیں انہیں مسائل کے حل سے نہیں، اس بات سے دلچسپی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سندھ کی حکومت کو گرا دیا جائے، اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں، لیکن نمبر گیم اُن کے راستے میں سد ِ سکندری بن کر کھڑی ہو جاتی ہے جس کے لئے وہ کبھی بندے توڑنے اور کبھی فارورڈ بلاک کا راستہ تجویز کرتے ہیں، لیکن اول تو ایسے راستے کبھی کامیابی کی منزل تک لے کر نہیں گئے اور گئے ہیں تو آدھے سے بھی کم راستے میں منزل کھوٹی ہو گئی ہے، اس کے لئے واضح اور کشادہ راستہ آئین نے کھلا چھوڑا ہے، یعنی وفاقی اور صوبائی حکومتیں آئین پر پوری طرح کار بند ہوں اور محض ایک دوسرے کو نیچے دکھانے کے لئے آئینی شقوں کا سہارا نہ لیں، بلکہ صوبے کی خدمت اور وفاق کی مضبوطی کے لئے ایسے کام کریں، جن کی آئین اجازت دیتا ہے۔
یہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی طویل عرصے صوبہ سندھ میں حکمران ہے اور اس عرصے میں عوام کو یہ توقع ضرور ہوگی کہ عوام کے مسائل حل ہوں گے جو شاید نہیں ہوسکے، اندرون سندھ اب تک جاگیرداری کلچر میں جکڑا ہوا ہے جو مسائل کے حل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بھی ہے اس وجہ سے اندرون سندھ کے باسیوں کو شکایات بھی ہوسکتی ہیں، لیکن پیپلز پارٹی اسی طرح عوام کے مینڈیٹ سے حکمرانی کر رہی ہے جس طرح تحریک انصاف وفاق، کے پی کے اور پنجاب میں کر رہی ہے۔ اگر کوئی سندھ میں پیپلزپارٹی کے حق کو چیلنج کرے گا تو جواب میں اسے یہ بات بھی سننی پڑے گی کہ تحریک انصاف نے کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہیں جو پیپلز پارٹی نہیں بہا سکی۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے تعاون کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھا جائے، وفاق اور صوبہ سندھ اگر مل کر آگے بڑھیں گے تو رکاوٹیں بھی دور ہو جائیں گی، لیکن اگر کراچی کے مسائل کو اس لئے بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا رہا کہ اس طرح پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی ہتک ہوتی ہے تو پھر معاملات کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ جس طرح وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سے چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبے کی حکومت اپنا کام کرے اور وفاقی حکومت اپنے فرائض ادا کرے۔ شاہ محمود اپنی جماعت کے وائس چیئرمین بھی ہیں وہ سندھ کے ان عناصر کو کنٹرول کریں جو ہر دوچار ہفتے بعد نئے سرے سے لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں آتے اور اعلان کرتے ہیں کہ چند دن میں صوبائی حکومت ختم کردیں گے۔ یہ ایک منفی سرگرمی ہے اگر پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کرنا ہے تو وفاق سمیت چاروں صوبوں میں دوبارہ انتخابات کراکے دیکھ لیں۔ شاید اس طرح تحریک انصاف کے ان لوگوں کا مسئلہ حل ہو جائے جنہیں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کرنے کی بڑی جلدی ہے اور انہیں یہ حکومت ہضم نہیں ہو رہی۔