مان لیتے ہیں نوازشریف کی درخواست اشتہاری ہونے سے پہلے آئی، اس بنیاد پر اگرآگے بھی بڑھاجائے توان کی درخواست خارج ہی ہو گی ، نیب پراسیکیوٹر جہانگزیب بھروانہ 

مان لیتے ہیں نوازشریف کی درخواست اشتہاری ہونے سے پہلے آئی، اس بنیاد پر ...
مان لیتے ہیں نوازشریف کی درخواست اشتہاری ہونے سے پہلے آئی، اس بنیاد پر اگرآگے بھی بڑھاجائے توان کی درخواست خارج ہی ہو گی ، نیب پراسیکیوٹر جہانگزیب بھروانہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سزا کےخلاف نوازشریف کی اپیل پر سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ مان لیتے ہیں نوازشریف کی درخواست اشتہاری ہونے سے پہلے آئی، اس بنیاد پر اگرآگے بھی بڑھاجائے توان کی درخواست خارج ہی ہو گی ، بنیادی اصول یہ ہے کہ ملزم کا سرنڈر کرنا ضروری ہوتا ہے ۔
نجی ٹی وی جی این این کے مطابق اسلام آبادہائیکورٹ میں العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سزا کےخلاف نوازشریف کی اپیل پر سماعت ہوئی ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اخترکیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سماعت کی ۔
عدالت نے کہاکہ ابھی تو ہم نے طے کرنا ہے کیا نواز شریف کی درخواست سنی بھی جا سکتی ہے یانہیں ؟،نیب نے کہاکہ ضمانت منسوخی کی درخواست احتیاطی اقدامات کے طور پر دائر نہیں کی ،عدالت نے کہاکہ اگر نوازشریف کی درخواستیں قابل سماعت قراردیں تواس کو سنیں گے ، پہلے نوازشریف کی حاضری سے استثنا کی درخواست پر سماعت کرتے ہیں ، ابھی نواز شریف کی متفرق درخواستوں پر سماعت کی بات کررہے ہیں ۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دوران سماعت مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ نوازشریف کو بغیر سنے دوسری عدالت نے اشتہاری قرار دے دیا،نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے پرویز مشرف کیس کابھی حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ انعام الرحیم نے مشرف کے اثاثوں کی چھان بین کی درخواست دی ،پرویز مشرف کے وکیل کو پیش ہونے کی اجازت دی گئی، غیر معمولی حالات میں وکیل کو پیش ہونے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
 خواجہ حارث نے حیات بخش کیس کا بھی حوالہ دیا،جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ حیات بخش کیس کا سٹیٹس کیا ہے؟، خواجہ حارث نے کہاکہ حیات بخش سپریم کورٹ آف پاکستان کے 1981 کا کیس ہے، اس کیس میں سپریم کورٹ نے اشتہاری شخص کیلئے طریقہ کار وضع کیا۔
خواجہ حارث نے کہاکہ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد نوازشریف جیل میں تھے ،اسی عدالت نے نوازشریف کو ضمانت دی تھی ،اس وقت نوازشریف بیرون ملک علاج کیلئے گئے ہوئے ہیں، جب وہ پاکستان میں تھے تو عدالتوں میں پیش ہوتے رہے ،جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ صرف اتنا بتائیں عدالت اشتہاری کو سن سکتی ہے یا نہیں ؟۔
خواجہ حارث نے کہاکہ سزائے موت کے قیدی کو بھی سنا جا سکتا ہے، میں عدالتی معاونت کیلئے حوالے دے رہا ہوں، جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ آپ نے جیل سے بھاگنے والے مجرم کے کیس کا حوالہ دیا،جیل توڑ کر بھاگنا تو الگ سے ایک جرم ہوتا ہے، نوازشریف کے وکیل نے کہاکہ جیل توڑنا زیادہ سنگین جرم لیکن اس کیس میں اپیل کا میرٹ پرفیصلہ ہوا،جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ نوازشریف کوتویہاں سے ضمانت ملی تھی ،خواجہ حارث نے کہاکہ حیات بخش کیس میں سپریم کورٹ نے مفرور ملزمان سے متعلق اصول طے کئے۔
عدالت نے کہاکہ آپ سرنڈر کرنے کے حکم پر نظرثانی کی درخواست چاہتے کیا ہیں ،کیا آپ چاہتے ہیں العزیزیہ کیس کی سماعت ہی ملتوی کردی جائے ،یا آپ چاہتے ہیں نوازشریف کی عدم موجودگی میں میرٹ پر سماعت جاری رہے ؟،خواجہ حارث نے کہا کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی ایک بات کردیں ، عدالت نے کہاکہ اپیل کی میرٹ پر سماعت تو مفرور قرار دینے کے بعد بھی ہوسکتی ہے ،سرنڈر کرنے کے حکم پر نظرثانی کیلئے دائر درخواست پر خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہو گئے ۔
عدالت میں نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سرنڈر کرنے کے حکم پر نظرثانی کی درخواست قابل سماعت نہیں ،ایسے حکم پرنظرثانی کی قانون میں گنجائش موجود نہیں، عدالت نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کی ضمانت باقی نہیں رہی ، درمیان میں ایک اور عدالت کافیصلہ آگیا تو ہم نے کچھ نکات پر دلائل مانگے ۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ مان لیتے ہیں نوازشریف کی درخواست اشتہاری ہونے سے پہلے آئی، اس بنیاد پر اگرآگے بھی بڑھاجائے توان کی درخواست خارج ہی ہو گی ، بنیادی اصول یہ ہے کہ ملزم کا سرنڈر کرنا ضروری ہوتا ہے ۔