” چیف جسٹس صاحب ! کیا آپ اس بیرونی دباو کے بارے میں عوام کو کچھ بتائیں گے“ مریم نواز نے حیران کن سوال پوچھ لیا

” چیف جسٹس صاحب ! کیا آپ اس بیرونی دباو کے بارے میں عوام کو کچھ بتائیں گے“ ...
” چیف جسٹس صاحب ! کیا آپ اس بیرونی دباو کے بارے میں عوام کو کچھ بتائیں گے“ مریم نواز نے حیران کن سوال پوچھ لیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن )سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ نواز شریف کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم اسی مقدمے میں ہے جس میں خود سزا دینے والے جج ارشد ملک نے نواز شریف کی نا صرف بیگناہی بلکہ بلیک میلنگ اور دباو میں زبردستی فیصلہ دلوائے جانے کا اعتراف کیا ہے۔ جج صاحب کب کے گھر جا چکے مگر فیصلہ آج بھی جوں کا توں۔مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر انہوں نے کہا کہ جج ارشد ملک کو تو گھر بھیج دیا گیا مگر اس سے یہ نہیں پوچھا کہ نواز شریف کو سزا کس کے کہنے پر دی ؟ بلکہ نواز شریف کو ہی دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دے دیا؟مقدمہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ جج کے اعترافِ جرم کے بعد سزا کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ اگر سزا ہی قائم نہ رہتی ہو تو واپسی کیسی ، گرفتاری کیوں ؟۔
مریم نواز نے کہا کہ بتاو کسی ایک کا نام جس کے لیے ایجنسیز پر مشتمل JIT بنی ہو ، جس کے لیے نیب ریفرنسز دائر کرنے کا حکم جاری ہوا ہو، جس کے لیے مانیٹرنگ ججز لگائے گئے ہوں ، جس نے بیٹی سمیت عدالتوں میںڈیڑھ سو سے زائد پیشیاں بھگتی ہوں؟۔ان کا کہنا تھا کہ جو جیل کی کال کوٹھری میں جانے کے لیے اپنی 47 سالہ رفیقِ حیات کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر ، اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے ناکردہ جرائم کی سزا کاٹنے وطن واپس آ گیا ہو اور قانون کے آگے پیش ہو گیا ہو۔ ایسے ہوتے ہیں مفرور اور اشتہاری ؟۔انہوں نے کہا کہ مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ سیاستدانوں کی طرح معزز ججز بھی دباو میں ہیں ،ان کے فیصلے کہ رہے ہیں کہ وہ دباو میں ہیں،مگر کیا معزز جج حضرات کو اس قسم کے عدلیہ دشمن واروں کے سامنے دیوار نہیں بن جانا چاہیے اور کیا دوسرے معزز ججز کو جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسی کی طرح انتقام کا نشانہ بننے سے بچانا نہیں چاہیے ؟۔ان کا کہنا تھا کہ اگر معزز جج صاحبان نے آج دباو کے خلاف سٹینڈ نہ لیا تو یہ سلسلہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تک نہیں رکے گا بلکہ ہر وہ جج جو آئین اور قانون پر چلے گا اس ظلم و انتقام کی زد میں آئے گا،معزز چیف جسٹس نے خود فرمایا کہ دباو کا شکار ججز عوام کو انصاف نہیں دے سکتے،ہمارے نظام انصاف کے بارے میں اس سے بڑی گواہی کیا ہوگی؟عوام تو کچھ عرصہ اور ناانصافی بھگت لیں گے لیکن معزز جج صاحبان کو بیرونی دباو سے کب اور کیسے نجات ملے گی؟۔
مریم نواز نے کہا کہ جناب چیف جسٹس صاحب ! کیا آپ اس بیرونی دباو کے بارے میں عوام کو کچھ بتائیں گے کہ کون انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور کس کے سامنے جج صاحبان بے بس ہیں؟اگر ایسا ہی ہے تو کیا یہ سلسلہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسی پر رک جائے گا؟ دباو اور جبر انتظار کرنے سے نہیں ڈٹ کر مزاحمت کرنے سے ختم ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ محترم چیف جسٹس صاحب ! یہ تکلیف دہ سفر کب تمام ہو گا؟ نظامِ انصاف کو اپنے مقام تک پہنچنے کے لیئے کتنے بےگناہ قومی رہنماوں اور آئین، قانون اور انصاف پر چلنے والے معزز ججوں کی قربانی چاہیے ہو گی ؟،نواز شریف نے پہلے بھی اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑی تھی اور آج بھی جب عدلیہ کو دباو کا سامناہے تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ عدلیہ کو جو بھی دباو میں لانے کی کوشش کرے گا، ہم ہر قیمت پر اس کا راستہ روکیں گے۔

مزید :

قومی -