افغانستان اور پاکستان کے بارے میں پیش گوئیاں (2)
جس آڈیو لنک کا ذکر پہلی قسط میں کر آیا ہوں وہ محمد اسلم شاد صاحب کی طرف سے موصول ہوئی جو محکمہ کسٹم سے بطور کلکٹر ریٹائر ہوئے۔
ایکسائز اور کسٹم کا محکمہ سول سروس میں بعض لوگوں کے لئے بہت مرغوب رہا ہے لیکن بعض اسے بہ نگاہِ تحقیر بھی دیکھتے ہیں۔ پولیس اور کسٹم میں رہ کر بدعنوانی سے دامن بچانا محالات میں شمار ہوتا رہا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے، اسلم شاد صاحب ان معدودے چند آفیسرز میں سے ہیں جو کسٹم کیچڑ کے تالاب میں کنول بن کر کھڑے رہے۔مجھے ذاتی طور پر اس صورتِ حال کا تجربہ ہے۔
1962-63ء میں، میں گورنمنٹ ڈگری کالج رحیم یارخان میں بطور لیکچرار تعینات تھا۔ یہ کالج اس سال (یا ایک آدھ سال پہلے) شروع ہوا تھا۔ اس سے پہلے رحیم یارخان میں انٹرمیڈیٹ کالج تھا اور اہلِ شہر کا مطالبہ تھا کہ اسے اَپ گریڈ کرکے ڈگری کالج بنا دیا جائے۔ حکومت نے اسے اَپ گریڈ کرنے کی بجائے ایک نیا کالج کھول دیا اور اسے ڈگری کالج کا نام دیا گیا۔
تقریباً سارے اساتذہ (ایک آدھ کو چھوڑکر) نئی بھرتی تھے۔ ظفر، انور ادیب، شفیع اور میں سب کے سب پہلی پوسٹنگ پر تعینات ہوئے تھے۔ طلبا کی تعداد بہت کم تھی۔(چند طالبات بھی تھیں کیونکہ ان کے لئے کوئی ڈگری کالج برائے خواتین نہیں تھا اور سالِ سوم کے لئے انہیں ملتان، منٹگمری یا لاہور جانا پڑتا تھا، پرانے اساتذہ میں صرف عزیز صاحب تھے جو محبت اور شفقت کا پیکر تھے۔ ہم سب نے CSP کا امتحان دیا اور اتفاق دیکھئے کہ سب کامیاب ہو گئے۔ ان میں سے زیادہ تر گورنمنٹ کالج لاہور کے سٹوڈنٹ رہے تھے۔ مجھے ایکسائز اور کسٹم کا محکمہ ملا جسے میں نے قبول نہ کیا کہ اس میں رشوت کا چلن عام تھا اور اگر اس سے احتراز کیا جاتا تو پل صراط پر چلنے والی بات تھی۔ بہرکیف اس زمانے میں دیانت اور بددیانتی کے پیمانے اتنے واشگاف تھے کہ سول سروس کے بہت کم امیدوار کسٹم کو بہ طبیب خاطر قبول کرتے تھے لیکن بعد میں تو سیاسی سفارش اور رشوت کے ذریعے اس محکمے میں جانے کی بھاگ دوڑ عام ہو گئی۔
میرا تعلق پاک پتن کے ایک غریب گھرانے سے تھا (آپ اسے زیادہ سے زیادہ متوسط الحال کہہ سکتے ہیں) والد صاحب سکول ماسٹر تھے لیکن دینی اور اخلاقی اعتبار سے سارے شہر میں نیک نام تھے اس لئے ان کی ہدائت پر میں نے کسٹم کا محکمہ قبول نہ کیا اور فوج جوائن کر لی:
ما و مجنوں ہم سبق بودیم در دیوانِ عشق
او بہ صحرا رفت و ما در کوچہ ہا رُسوا شدیم
اس تھوڑی سی خود ستائی کے بعد دیگر احوال آنکہ مسٹر اسلم شاد اپنے آڈیو لنک میں یہ بتاتے ہیں کہ وہ 1975ء کے اواخر یا 1976ء کے اوائل میں اسلام آباد میں پوسٹ تھے۔ شادی ہو چکی تھی لیکن 4سال گزرنے کے بعد بھی کوئی بچہ / بچی نہیں ہوئی تھی۔ ظاہر ہے ہم پریشان تھے۔ اسی اثناء میں میرے ایک دوست نے ایک بزرگ کا ذکر کیا۔ یہ دوست CDA میں تھے اور ان کا نام چودھری رشید تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پشاور میں ایک اللہ والے ہیں۔ ان کے پاس دعا کے لئے چلتے ہیں۔ وہ (چودھری رشید) مجھے اس بزرگ کے پاس لے گئے۔ وہ صرف پشتو بولتے تھے۔ ان کے ساتھ ایک مترجم بیٹھا ہوتا تھا جو پشتو نہ جاننے والوں کے لئے اردو میں ترجمانی کیا کرتا تھا۔ خیر اس بابا جی نے ہمارے لئے دعا کی اور اللہ کریم نے کرم کیا۔اہلیہ کی گود ہری ہو گئی۔
چودھری رشید بتاتے ہیں کہ ایک بار وہ ان بزرگ کے ساتھ پشاور سے اسلام آباد آ رہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ انہوں نے گاڑی روکنے کا کہا۔ گاڑی رکی تو وہ ایک طرف ایک اونچی جگہ پر نکل گئے۔ہم نے سوچا چھوٹے پیشاب کی حاجت وغیرہ ہوئی ہو گی لیکن جب آدھ گھنٹہ گزر گیا اور وہ واپس نہ لوٹے تو رشید صاحب ان کو دیکھنے کے لئے ان کے پیچھے چلے گئے۔ دیکھا تو وہ افغانستان کی طرف منہ کرکے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ رہے تھے۔ چودھری صاحب واپس آ گئے۔ کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد وہ بزرگ بھی واپس آئے۔ میں نے ان سے پوچھا: ”حضرت صاحب! اتنی دیر کیا کر رہے تھے؟“ انہوں نے کچھ تامل کیا اور پھر جواب دیا: ”افغانستان میں شدید قتل و غارت گری ہونے والی ہے۔ بہت کہرام مچے گا۔ میں افغانوں کے لئے صحت، زندگی اور سلامتی کی دعا مانگ رہا تھا، اس لئے دیر ہو گئی“۔
اس وقت افغانستان پر سوویٹ حملے کی کوئی خبر نہ تھی۔ وہ تو دسمبر 1979ء میں ہوا۔ اور واقعی افغانستان میں اتنی تباہی ہوئی کہ اس کا تصور بھی 1975-76ء میں محال تھا۔ رشید چودھری نے آکر مجھ سے بات کی تو میں نے بھی سنی اَن سنی کر دی۔
اسلم شاد صاحب نے دوسرا واقعہ یہ سنایا کہ: ”میں 1983ء میں IMF کا دو ماہ کا ایک کورس کرنے کے لئے واشنگٹن ڈی سی گیا۔ میری اہلیہ بھی ساتھ تھیں۔ اس دور میں میرے ایک دوست مسٹر طیب صدیقی تھے جو فارن سروس میں تھے اور واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارت خانے میں بطور سیکنڈ سیکرٹری یا فرسٹ سیکرٹری پوسٹ تھے۔ اُن میاں بیوی نے ہمارا کھانا کیا۔ یہ طیب صدیقی بعد میں اردن میں سفیر بھی رہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ضیاء الحق بطور بریگیڈیئر عمان میں تعینات تھے۔ میرے دوست طیب صدیقی نے مجھے ایک عجیب و غریب بات بتائی، کہنے لگے: ”میں بلغاریہ میں بطور سفیر پوسٹ تھا۔ مجھے کسی نے کہا کہ یہاں بلغاریہ میں ایک اندھی عورت ہے۔ آپ اس کے پاس جائیں تو وہ آپ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی ہے اور آپ کے بارے میں چیزیں بتانا شروع کر دیتی ہے…… میں نے سوچا مجھے یہاں کون جانتا ہے۔ چنانچہ میں اس خاتون کے پاس چلا گیا۔ ایک لمبی قطار لگی تھی اور لوگ اپنا ”حال احوال“ جاننے کے لئے جمع تھے۔
جب میری باری آئی تو اس اندھی عورت نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور کہا ’سفیر؟ …… پاکستان؟‘…… میں بہت حیران ہوا کہ اس کو کیسے پتہ ہے کہ میں فارن سروس میں ہوں اور سفیر ہوں اور میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ خیر اس کے بعد اس عورت نے پاکستان کے بارے میں باتیں بتانی شروع کر دیں اور کہنے لگی: ’آپ جس ملک سے آئے ہیں وہاں آنے والے چند برسوں میں بڑی تباہی اور بربادی ہوگی۔ ہزاروں لوگ مارے جائیں گے۔ اتنی بربادی ہو گی کہ تم لوگوں کے تصور سے بھی باہر ہے‘…… میں اس کی باتیں سنتا رہا۔ اس وقت افغانستان پر سوویٹ یونین کا حملہ تو جاری تھا لیکن حالات پاکستان کے قابو میں تھے۔ لوگ مارے جا رہے تھے لیکن مرنے والوں کا تعلق بیشتر افغانستان سے تھا، پاکستان سے نہیں۔ اتنا کہنے کے بعد وہ کچھ دیر کور کی اور پھربولی: ’اس بربادی کے بعد ایک وقت ایسا آئے گا کہ پاکستان دنیا کے اہم ترین ممالک میں شمار ہونے لگے گا۔ بڑے پاور فل ممالک، پاکستان سے پوچھ کر فیصلہ کیا کریں گے کہ اب آگے کیا کرنا چاہیے‘……
کوئی دوماہ پہلے مجھے طیب صدیقی کی بات یاد آئی۔ اسلام آباد میں میرے ایک دوست ہیں۔ ان کا نام شیرافگن ہے۔ وہ بھی بطور سفیر ریٹائر ہوئے ہیں۔ میں نے ان کو فون کیا اور کہا کہ مجھے طیب صدیقی کا نمبر دو۔ میں ان کو فون کرکے بلغاریہ کی اندھی عورت کا واقعہ یاد دلانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے طیب صدیقی کا نمبر تو دے دیا لیکن یہ بھی کہا کہ وہ 5،6سال سے پارکنسن (رعشہ) کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ان کی زبان میں لکنت آ چکی ہے اور آپ ان کی باتیں سمجھ نہیں پائیں گے…… بہرحال میں نے ان سے بات کی اور بلغاریہ والی نابینا خاتون کی باتیں یاد دلائیں تو انہوں نے 100فیصد توثیق کی کہ خاتون نے بالکل یہی باتیں بتائی تھیں کہ پہلے پاکستان کی بربادی ہو گی لیکن بعد میں اس کا سٹیٹس اتنا اوپر اٹھ جائے گا کہ نہ صرف اس خطے کے ممالک بلکہ دنیا بھر کے اہم ملک پاکستان سے پوچھ کر بین الاقوامی سیاسیات میں آگے بڑھا کریں گے…… اب میں آپ کے ساتھ تیسرا اور اہم ترین واقعہ بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں“۔(جاری ہے)