قومی اسمبلی کا اجلاس مزید تاخیر کا شکار، رات 8 بجے ہونے کا امکان

Sep 15, 2024 | 05:37 PM


اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وفاقی کابینہ کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس بھی تاخیر کا شکار ہو گیا اور اسمبلی کا اجلاس مزید چار گھنٹے تاخیر کے بعد رات آٹھ بجے شروع ہونے کا امکان ہے جس میں ممکنہ طور پر آئینی ترمیم کو منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔
ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس آج شام 4 بجے ہونا تھا لیکن بعدازاں یہ تاخیر کا شکار ہو گیا اور اب یہ چار گھنٹے بعد رات 8 بجے شروع ہونے کا امکان ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا سہ پہر تین بجے ہونے والا اجلاس بھی تاحال شروع نہ ہو سکا تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس جلد شروع ہونے کا امکان ہے۔
کابینہ کا اجلاس دن 11 بجے طلب کیا گیا تھا لیکن پھر اسے تین بجے تک موخر کردیا گیا تھا لیکن یہ شام پانچ بجے تک شروع نہ ہو سکا۔
اس سے پہلے ایوان بالا سینیٹ کا اجلاس بھی تاخیر کا شکار ہوا تھا اور 4 بجے شروع ہونے والا اجلاس 7 بجے تک موخر کردیا گیا تھا لیکن قومی اسمبلی اجلاس میں تاخیر کے سبب اب سینیٹ کا اجلاس مزید ملتوی ہونے کا امکان ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپنے ارکان کو حاضری یقینی بنانے کا حکم دے دیا، قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے ارکان قومی اسمبلی کو مراسلہ جاری کردیا، مراسلے میں اراکین قومی اسمبلی کو آج کے اجلاس میں حاضری یقینی بنانےکی ہدایت کی گئی ہے۔
دوسری جانب سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے بھی ارکان کو مراسلہ لکھتے ہوئے اراکین کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت دے دی ہے۔
آئینی ترمیم کی منظوری اور عدم منظوری کے حوالے سے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور اسی سلسلے میں گزشتہ روز رات گئے بلاول بھٹو اور محسن نقوی نے فضل الرحمن سے طویل ملاقات میں آئینی ترمیم پرمشاورت کی تھی۔
آئینی ترمیم کے لئے حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی ارکان اسمبلی کی منظوری درکار ہے، یعنی 336 کے ایوان میں سے تقریباً 224 ووٹ درکار ہیں تاہم ابھی تک ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کے پاس دونوں ایوانوں میں کم از کم ایک درجن ووٹوں کی کمی ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے حکومتی بینچوں پر 211 ارکان موجود ہیں جس میں مسلم لیگ (ن) کے 110، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68، ایم کیو ایم پاکستان کے 22 ارکان شامل ہیں۔
اس کے علاوہ حکومتی ارکان میں استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق کے 4،4، مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے 1،1 رکن بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب قومی اسمبلی میں اپوزیشن بینچوں پر 101 ارکان ہیں، سنی اتحاد کونسل کے 80 اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 8 آزاد ارکان کے ساتھ 88 ارکان اسمبلی، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 8 جبکہ بی این پی مینگل، ایم ڈبلیو ایم اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن موجود ہے۔
آئینی ترمیم کے لئے حکومت کو سینیٹ میں 63 ووٹوں کی ضرورت ہے تاہم ایوان بالا میں حکومتی بینچز پر 54 ارکان موجوود ہیں جن میں پاکستان پیپلزپارٹی کے 24، مسلم لیگ (ن) کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 اور ایم کیو ایم کے 3، ارکان شامل ہیں، یعنی حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے مزید 9 ووٹ درکار ہوں گے۔
اعلیٰ ایوان کے اپوزیشن بینچز پر پی ٹی آئی کے17، جے یو آئی کے 5، اے این پی کے 3، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت مسلمین، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق کا ایک ایک سینیٹر ہے، اپوزیشن بینچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی ہیں، اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن بینچز پر 31 سینیٹرز موجود ہیں۔۔

مزیدخبریں