پاک افغان تعلقات اور امن کا قیام
جناب من!اگر ہم کسی بھی پاکستانی سے یہ سوال کریں کہ پاکستان کو آج کس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ؟تو اس کا برجستہ جواب یہی ہو گا کہ امن اور شانتی کی کہ امن کی فاختہ نجانے اس دھرتی کو چھوڑ کر کس منڈیر پر جا بیٹھی ہے اور اس کی جگہ بدامنی اور لا قانونیت کے گدھ معصوم انسانوں کی بوٹیاں نوچتے پھرتے ہیں اور ہر طرف آہیں ،کراہیں اور سسکیاں اپنا دامن پھیلائے کھڑی ہیں بقول فراز : کہتے ہیں کہ گھر اب زنداں ہیں سنتے ہیں کہ زنداں مقتل ہیں یہ جبر خدا کے نام پہ ہے ،یہ ظلم خدا را کیسا ہے!نجانے کب اس دیس میں امن و شانتی کی خنکی سے سرشار اور معطر ہوائیں دہشت گردی کی بدبو دار اور مسموم ہواﺅں کی جگہ یہاںکے باسیوں کو مہکائیں گی، جس کے آثار مستقبل قریب میں نظر نہیں آرہے، کیونکہ امسال افغانستان سے بدیسی فوجیوں کے انخلا کے بعد اہل دانش کے نزدیک کابل انتظامیہ اور طالبان گروپوںکے مابین اختیارات کی جنگ کے وساوس اور خدشات موجود ہیں کہ کہیں ویسی ہی خانہ جنگی کی صورتحال نہ پیدا ہو جائے جیسی روسی فوج کے انخلا کے بعد پیدا ہوئی تھی کہ فاتح گروہ آپس میں ہی دست و گریبان ہو گئے تھے ۔اگر اس طرح کی صورتحال افغانستان میں نیٹو افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہوتی ہے جس کے بہت زیادہ امکانات موجود ہیں تو اس کا خمیازہ پاکستان کو بھی بھگتنا پڑے گا ۔اس ساری صورتحال میں ہمارے حکمرانوں کو بیدار مغزی کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اس ضمن میں سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اندرونی طور پر اس ساری صورت حال پر یک زبان ہوجاناچاہئے ۔فوج اور حکومت کے درمیان ہم آہنگی وقت کی ناگزیر ضرورت ہے اور حکومت پاکستان کو اپنی ایک مستقل خارجہ پالیسی اس سلسلہ میں تشکیل دینی چاہئے کہ ایسے آثار نظر نہیں آرہے کہ اس سال امریکہ اور نیٹو افواج مکمل طور پر افغانستان کو خیر باد کہہ دیں ،مگر وہ بہرحال یہاں اپنی مزید طاقت بھی ضائع نہ کرنا چاہیں گے۔ ایک مجبوری تو امریکہ کی اس علاقہ میں روس اور چین کے اوپر بالادستی قائم رکھنا ہے تو دوسری طرف امریکی حکومت پر اس کی عوام کی طرف سے اندرونی طور پر دباﺅ ہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کونکالا جائے ۔دراصل امریکہ ہر صورت افغانستان میں اپنی برتری قائم رکھنا چاہتا ہے کہ یہ تزویراتی بھی ہے اور معدنیات کے حصول کے لئے بھی ہے کہ مثلاً دنیا میں سب سے بڑے سونے کے ذخائر افغانستان میں پائے جاتے ہیں ۔اس وقت روس ،چین، شام ،ایران اور حزب اللہ کا اتحاد امریکہ کے لئے درد سر بنا ہوا ہے اور عالمی سطح پر اکلوتی عالمی طاقت کا بھرم قائم رکھنا اب اس کے لئے مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے اس لئے اس صورتحال میں پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور مستحکم تعلقات امریکہ کی مجبوری بن چکے ہیں اس لئے اب کچھ عرصہ سے حکومت پاکستان کے کہنے پرامریکہ نے پاکستان میںڈرون حملوں کو بند کر رکھا ہے۔ اس ساری صورت حال سے پاکستان کو فائدہ اٹھانا چاہئے اور امریکہ کے ساتھ پاک افغان بارڈرکے مسئلہ کو اجاگر کرنا وقت کی ناگزیر اور اشد ضرورت ہے کہ افغانستان سے افغان باشندوں کی بے محابا آمد و رفت کو کنٹرول کرنا انتہائی ضروری ہے کہ وہاں کے دہشت گرد پاکستان میں تباہی مچاتے ہیں کہ یہ ان کے لئے لقمہ تر بنا ہوا ہے ۔تباہی مچا کردہشت گرد دوبارہ افغانستان داخل ہو جاتے ہیں اور افغان حکومت کی سرپرستی ان کو حاصل ہوتی ہے کہ حامد کرزئی نے سابق صدر برہان الدین ربانی کے قتل میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام لگایا اور دہشت گردوں کی سرپرستی شروع کر دی ،جنہوں نے پاکستان میں بہت تباہی مچائی ۔
صرف 2013ءمیں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں پانچ ہزار سے زائد افراد راہی ملک عدم ہو گئے ،جبکہ افغان سموں کے ذریعہ بہت سارے جرائم بھی پاکستان میں وقوع پذیر ہوئے اور ہو رہے ہیں ،جبکہ افغانستان میں پاکستان کی نسبت زیادہ امن و امان کی صورت حا ل پائی جاتی ہے ،مگر پھر بھی افغان حکومت کے ارباب اختیار اپنے الزامات کی توپوں کا رخ ہمیشہ پاکستان کی طرف رکھتے ہیں جو ہر وقت شعلے اگلتی رہتی ہیں ۔بہرحال پاک افغان سرحد کے مکمل کھلا ہونے کی صورت میں پاکستان کے خطرات میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا اسی طرح افغانستان سے بڑی تعداد میں منشیات بھی پاکستان میں داخل ہوتی ہیں، اس کی روک تھام بھی سرحد کے حل کے بغیر ناممکن ہے، ابھی تک پاک افغان سرحد اس لئے کھلی رکھی گئی کہ دونوں اطراف کے قبائل کی باہم رشتہ داریاں ہیں ۔اہل دانش کے نزدیک یہ فروگزاشت اور سہو پاکستان کے قومی مفاد کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں کہ عام پختونوں کے علاوہ افغانستان سے دہشت گرد بھی پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ حکومت پاکستان اس سلسلہ میں ٹھوس اقدامات کرے ۔بہر حال گزشتہ بارہ سال سے پاکستان میں جس طرح کی بد امنی پائی جاتی ہے اور جس طرح کی دہشت گردی کی کارروائیوں کا یہ ملک شکار ہے اسکا خاتمہ وقت کی ناگزیر ضرورت ہے اس لئے ہماری قیادت کو اب بعض اہم فیصلے کرنے ہوں گے اور امریکہ اور اسکے حلیف ممالک کو یہ باور کرانا ہوگا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کو نظرانداز کرنا اور افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کو بڑھانا امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے لئے، بلکہ افغانستان کے لئے بھی مناسب اور ٹھیک نہ ہو گا ۔شائد اس لئے پاکستان کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور بھارت کو نوازا جا رہا ہے کہ پاکستان کے چین سے قریبی مراسم ہیں اور گوادر کی بندرگاہ چین کے حوالے کرنا بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے بہرحال ہماری قیادت کو افغانستان کے ساتھ پائے جانے والے تمام مسائل اور تنازعات اور امریکہ کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں متفقہ اور ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔