کیا پیپلزپارٹی کا مقدر یہی ہے؟
اس سے بڑی ستم ظریفی اور بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ کسی مُلک گیر جماعت کو مقامی سطح پر امیدوار ہی دستیاب نہ ہوں۔ مُلک بھر کے چالیس کنٹونمنٹ بورڈوں کے علاقوں میں لوکل باڈیز کے انتخابات ہو رہے ہیں اور سرگرمیاں بھی جاری ہیں، لاہور میں 25حلقے ہیں، انتخابات چونکہ جماعتی بنیادوں پر ہونا ہیں اس لئے جماعتی سطح پر ہی امیدواروں کی ضرورت ہے اور وہ ٹکٹ بھی چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز پیپلزپارٹی لاہور کی صدر ثمینہ خالد گھرکی نے پریس کانفرنس میں اپنی جماعت کے امیدواروں کا اعلان کیا تو بہت حیرت اور افسوس ہوا کہ اب پیپلزپارٹی ان حالات تک آ گئی کہ اس کے پاس اِن25حلقوں کے لئے پورے امیدار بھی نہیں ہیں، ہارنا جیتنا تو الگ بات ہے تاہم جماعت کی طرف سے امیدوار کا ہونا تو ضروری ہے، لیکن یہاں ایسا نہیں ہو سکا اور ثمینہ گھرکی نے25حلقوں میں سے 15حلقوں میں پارٹی امیداروں کا اعلان کیا اور دو حلقوں کے آزاد امیدواران کو جماعتی حمایت کا یقین دلایا اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیپلزپارٹی دس حلقوں میں امیدوار ہی تلاش نہیں کر سکی۔ چہ جائیکہ انتخابات میں کامیابی کا دعویٰ کرے۔ اس سلسلے میں ہمارے سٹاف رپورٹر نے ایک روز قبل ہی یہ خبر فائل کر دی تھی اور بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر لاہور کنٹونمنٹ بورڈ کی سطح پر یہ حالت زار ہے تو دوسرے شہروں کی کیفیت کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ یوں کنٹونمنٹ بورڈ میں امیدوار نہیں ملے تو جب عدالت عظمیٰ کی ہدایت کے مطابق ستمبر یا پھر اکتوبر میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے تو اس جماعت کی حالت کیا ہو گی یہ بالکل واضح ہے۔اگرچہ عدالت عظمیٰ کے روبرو جواب دیتے ہوئے اگلے سال کے لئے استدعا کی گئی، لیکن عدالت نے ستمبر میں انتخابات کے انعقاد کی ہدایت کی تھی۔ تاہم اس میں ردوبدل ممکن ہے کہ22ستمبر کو حج اور23ستمبر کو عبدالاضحی کا امکان ہے۔ ایسی صورت میں ستمبر کے آخری عشرے میں تاریخ کا تعین کرتے ہوئے اس امرکو مدنظر رکھنا ہو گا کہ دینی بھائیوں کے لئے یہ تہوار انتخابات سے کہیں مقدم ہے، اس لئے یہ امکان ہو سکتا ہے کہ ستمبر کی بجائے انتخابات اکتوبر کے پہلے عشرے میں ہوں، تب تک حاجی، بھی بڑی تعداد میں واپس آ چکے ہوں گے۔ یہ تو بہرحال تاریخوں کے تعین کا معاملہ ہے جو عدالت عظمیٰ،الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہے اور اس پر کوئی تنازعہ بھی نہیں ہو گا، لیکن سوال یہ ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا تعین ستمبر کے لئے ہو یا اکتوبر کی کوئی تاریخ مقرر کی جائے یہ انتخابات تو جماعتی بنیادوں پر ہو رہے ہیں، اس لئے ہر جماعت کو ہر حلقہ سے اپنا امیدوار نامزد کرنا ہو گا۔ اگر پیپلزپارٹی کی حالت زار یہ ہے تو پھر ان انتخابات میں بھی اللہ ہی حافظ ہے، ویسے بھی سنٹرل پنجاب کی موجودہ قیادت سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ میاں منظور احمد وٹو حکمت عملی اور سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر ضرور ہیں، لیکن ان کا مزاج ہی مختلف ہے۔ وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے کلچر سے خود کو ہم آہنگ ہی نہیں کر پائے اور نہ ہی جماعتی اختلافات سے بالاتر ہو کر پنجاب میں تنظیمی ڈھانچے کو مکمل کر سکے ہیں۔ البتہ ان کو ایسا فن ضرور آتا ہے کہ اوپر کی سطح سے نیچے تک ان کی مخالفت ہے، لیکن ان کو کوئی ہلا نہیں سکتا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالوں اور حامیوں میں جو امور زیر بحث آتے ہیں ان میں یہ تقرری بھی ہے۔گزشتہ روز دو چار جیالوں کے علاوہ بعض دانشور بھی ایک محفل میں جمع تھے۔ انہی میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے حامی بھی تھے۔ جیالوں کے مطابق تو آج بھی پیپلزپارٹی کی حمایت میں کمی نہیں آئی، لیکن پارٹی رہنماؤں کی ناقص کارکردگی اور آصف علی زرداری کی مفاہمتی سیاست نے جماعت کو نقصان پہنچایا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے حامی تو پیپلزپارٹی کے وجود ہی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے ان کے مطابق تحریک انصاف نے یہ خلا پُر کر دیا اور جیالے بھی اس جماعت کا رخ کر رہے ہیں۔ تاہم ایک سنجیدہ فکر دانشور نے آج اخبارات میں بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کی شائع ہونے والی ایک تصویر کی طرف توجہ دلائی، ان کے مطابق دوسری بار ایسی تصویر جاری کر نے کی ضرورت پیش آئی، کیا اس سے خود پیپلزپارٹی اور زرداری گھرانے نے یہ ثابت نہیں کیا کہ اختلافات تو ہیں؟ یہ صاحب ان اختلافات کی ذمہ داری بھی میاں منظور وٹو پر منتقل کر رہے تھے۔ ان کے مطابق بلاول سیاست میں اترے تو ان کا مطالبہ تنظیمی تبدیلیوں کا تھا اور میاں منظور وٹو کی جگہ کسی پرانے اور زیادہ مقبول جیالے کو سنٹرل پنجاب کا صدر بنانا چاہتے تھے، لیکن آصف علی زرداری نہیں مانے۔ وہ کہتے ہیں کہ جتنا وہ جانتے ہیں دوسروں کو نہیں علم، ان کے مطابق وہ پارٹی کی قیادت کے علاوہ پانچ سال صدر بھی رہے اور ان کے سینے میں بہت کچھ دفن ہے۔ یوں آصف علی زرداری اپنے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلنے دیتے، لیکن یہ بھی طے ہے کہ جن جن حضرات کو خود آصف علی زرداری نے نامزد کیا اور سرکاری یا جماعتی عہدے دیئے، کرپشن کے الزام بھی انہی پر ہیں چاہے وہ یوسف رضا گیلانی ہوں یا فریال تالپور کا باورچی اور ڈاکٹر سومرو ہو، اس سلسلے میں شرمیلا فاروقی اور ان کے سسرال کے بھی قصے چل رہے ہیں، بلکہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کا بہت چرچا ہے، جس کے بارے میں ابھی تک کوئی وضاحت یا تردید نہیں آئی اور یہ افسوسناک ہے۔ اس طرح پیپلزپارٹی کا مستقبل سوالیہ نشان بن گیا ہے۔اس حوالے سے ایک دوست نے محفس کے عنوان سے یونانی کہانی سنائی ہے وہ آئندہ کالم میں۔