پاکستان ایک گنجلک سنگم اور پیچیدہ دوراہے پر

پاکستان ایک گنجلک سنگم اور پیچیدہ دوراہے پر
 پاکستان ایک گنجلک سنگم اور پیچیدہ دوراہے پر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جانے کس ستم ظریف نے لفظ ’’ غیرجانب دار‘‘ ایجاد و اختراع کیا تھا۔اس حشر ساماں موجد و مختر کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آیا ہو گاکہ کسی دن یہ لفظ دو مملکتوں اور حکومتوں کو ایک دوراہے پر لاکھڑا کرے گا۔ سعودی یمن تنازع میں پاکستانی پارلیمان کی متفقہ قرار دادمیں’’غیر جانب داری‘‘کا تاثر زائل کرنے کے لئے وزیر اعظم کو خود میدان میں آنا پڑا کہ خلیجی دوستوں کے شکوک و شبہات دور کئے جائیں۔ہادی حکومت کی بحالی اور حوثی باغیوں کی علی الاعلان مذمت سے پاکستان سعودی عرب کے موقف کے بالکل قریب آن کھڑا ہے۔ مصیبت اور مخمصہ، مگر یہ ہے کہ شاہی فیملی دو اور دو برابر چار کی مانند پاکستان کی حمایت اور قوت چاہتی ہے۔ ان کے نزدیک اقرار اور انکار، دوستی اور دشمنی،حمایت اور مخالفت، سچ اور جھوٹ، سیاہ اور سفید کے مابین کوئی تیسرا راستہ یا علیحدہ پڑاؤ نہیں ہوتا۔ مصلحت ،خارجہ پالیسی اور سفارت۔۔۔ ایسے نازک و حساس اور لطیف معاملات مزاجِ کج کلاہی پر گراں گزرتے ہیں کہ یہ سب جمہوریت کے چونچلے ہیں۔عربی دوستی بجااور تسلیم ،ان کی توقعات و خواہشات پر بھی کلام کہاں!لیکن پاکستان کی پوزیشن بھی کسی خلافتِ عباسیہ ایسی نہیں کہ برکھا جہاں بھی برسے ،خراج بغداد ہی پہنچے اور نہ ہی ہم سلطنت عثمانیہ کے مثل کہ بابِ عالی کی ناراضگی کا اثر سمندر پار بھی پڑے۔


پاکستانی پارلیمانی قرار داد میںیہ جو لفظ ’’غیر جانب داری‘‘ برتا گیا۔۔۔ وزیراعظم کے پالیسی بیان کے بعد اب کوئی ابہام برقرار نہیں رہا کہ یہ بڑی سوچ بچار اور غورو خوض کے بعد ہی استعمال کیا گیا ۔ساتھ ہی ساتھ سعو دی سالمیت کے خطرے پردفاع کرنے کا اعادہ بھی اپنے اندر ’’بین السطور‘‘پیغام لئے ہوئے ہے ۔’’غیر جانب داری‘‘کے الفاظ اور پیغام کا تعلق عالمی برادری سے ہے اور اس کا مطلب و مفہوم اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ پاکستان اس تنازع کو سفارت اور مذاکرات کے ذریعے ہی حل کرنے کا خواہاں ہے ۔میاں صاحب پر جنگ کے اسرار و عواقب بہت واضح ہیں،وہ خوب سمجھا کئے کہ اس بھڑکتی ہوئی آگ میں پاکستان کے کودنے کا مطلب پورے مشرق وسطیٰ کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دینے کے مترادف ٹھہرا۔خدانخواستہ اس تنازع میں اگر پورا مشرق وسطیٰ لپیٹ میں آ گیا، تو پھر معاملات پاکستان کے دست اور گرفت سے نکل جائیں گے۔پاک ترک جلی اور خفی سفارتی کوششیں اِسی ضمن میں آگے بڑھا کئے کہ معاملے کو پھیلنے کی بجائے سمیٹنے کی جانب لایا جائے،جبکہ دوسری جانب خاکمِ بدہن!اگر اس تنازع کی شدت اور نہایت بڑھتی ہے تو پھر پاکستان کے لئے اپنی اور سعودی سالمیت یکساں قرار پائے گی ۔


یہ تصویرکا ایک رخ ہے ،حقیقت کی ایک پرت ہے اور دوسری جانب یہ بھی کہ سعودی حامی اور عرب بشر ایسا نہیں سوچتے۔وہ جو بھی سوچا کئے،حقیقت تو یہ بھی ہے کہ مملکتوں کی دوستیاں اور حکومتوں کی خارجہ پالیسیاں محض منہ زبانی یا خانہ پُری کے لئے رحیم گل کے کرہ یاقوت میں ہوں تو ہوں ،کم ازکم کرہ ارض میں نہیں ہوتیں۔اگر ریاستیں اور حکومتیں ایک دوسرے کی دوستی کا دم بھرتی ہیں تو آخر اس کے پیچھے راز کیا ہے؟اگر کسی مملکت نے آڑے اور بُرے وقتوں میں کسی دوسری ریاست کے معاشی انجن میں مالیاتی تیل ڈالا ہو ،بارہا اور با ر بارجھلستی دھوپ میں سائباں مہیا کیا ہو تو وہ دوسری ریاست سے کیا توقع باندھے؟ با اسالیبِ مختلف پوچھا جانا چاہئے کہ اگر آپ نے دوستی میں کسی کے کام نہیں آنا تو اضافی آشنائی کا بوجھ اٹھانے کا فائدہ!

ہمارے ہاں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ’’غیر جانب داری ‘‘ کا مطلب وہی لیا ہے۔۔۔جو اول اول ڈاکٹر انور قرقاش سمجھے تھے اور انہوں نے جھٹ سے ٹوئٹر پر ایک تلخ بیان داغ دیا تھا۔ یہ لوگ غیر جانب داری کی آڑ اور پرائی جنگ میں نہ کودنے کی اوٹ میں بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔ایف 16 کی خریداری میں سعودیہ کے کروڑوں ڈالروں کو گولی ماریئے ،تیل کی ادھار اور گاہے گاہے مفت فراہمی کو بھی بھاڑ میں جھونک آیئے، آئے روز سیلاب زدگان کی امداد کو بھی دریا میں ڈال آیئے ،زلزلہ متاثرین کی اعانت کو بھی طاقِ نسیاں پر دھر دیجئے ،سقوطِ ڈھاکہ میں مالی،جذباتی،اخلاقی اور سفارتی امداد کو بھی طوطاچشمی کی نذر کرتے ہیں ،کارگل کے کڑے سمے اورکٹھن امتحان میں (ذلت آمیز پسپائی سے بچانے کے لئے )کلنٹن نواز ملاقات میں سعودی فرمانروا کا کردار بھی بھول بسر جائیے،ابھی کل ہی ہمارے قومی خزانے میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے آنے کی بات بھی جانے دیجئے، بس یہ بتلا دیجئے۔۔۔ماضی میں ننگے پاؤں بکریاں اور اونٹ چرانے والے عرب کے نجدی بدو اگر ہماری ایٹمی جوہری قوت کی پشت پر نہ ہوتے تو کیا آج ہم ایٹمی قوت بھی ہوتے ؟سوال تو یہ بھی ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد معاشی پابندیاں لگنے پر ہماراہاتھ کسی ایرانی خامنائی،یمنی حوثی نے تھا ما تھا یا آلِ سعود نے ؟کہا جاتا ہے کہ ایٹمی دھماکوں سے قبل جب ہمارے وزیراعظم بعد کے اثرات ومضمرات اور حالات و واقعات پرغور کیا کئے ....... تو انہیں قوی او رکامل یقین تھا کہ برا وقت آیا تو سب پیچھے ہٹ جائیں گے پر جبہ اور عمامہ میں ملبوس لوگ پیچھے نہ ہٹیں گے ۔ایسے تناظر میں پاکستان ایک گنجلک سنگم اور پیچیدہ دوراہے پر آن کھڑا ہے،دیکھئے پردہ غیب سے کیا طلوع ہوتا اور ہم اس بحران سے کیسے نکلا کئے ۔

مزید :

کالم -